وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ
صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو (١) یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔ (٢)
فہم القرآن : ربط کلام : دوغلا پن اختیار کرنے کی بجائے، عُسرویُسر میں دین پر قائم رہو اور نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب بنو۔ اے بنی اسرائیل ! تمہیں اپنے آپ کو شریعت کا پابند صبر و شکر کا خوگر اور نماز قائم کرنے والا بننا چاہیے لیکن یاد رکھو یہ کام نسبتاً مشکل ہیں۔ اس پر عمل کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ صبر و شکر اور نماز کی ادائیگی وہی لوگ کیا کرتے ہیں جن کے دل ” اللہ“ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا میں ہمیشہ نہیں بیٹھ رہنا بلکہ آخر کار ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور فکر آخرت کے نتیجہ میں آدمی سے نیک اعمال کا ظہور ہوتا ہے۔ اس فکرکے بغیر دینی کام اچھی عادت اور پیشہ توہو سکتے ہیں مگر توشۂ آخرت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کردار میں اچھی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نماز کے ذریعے مدد طلب کرنا : (إِذْ أَتٰی عَلٰی جَبَّارٍ مِّنَ الْجَبَابِرَۃِ فَقِیلَ لَہٗٓ إِنَّ ہَا ہُنَا رَجُلًا مَعَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَسَأَلَہٗ عَنْہَا فَقَالَ مَنْ ہٰذِہٖ قَالَ أُخْتِیْ فَأَتٰی سَارَۃَ قَالَ یَا سَارَۃُ لَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَیْرِی وَغَیْرَکِ وَإِنَّ ھٰذَا سَأَلَنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّکِ أُخْتِیْ فَلَا تُکَذِّبِیْنِیْ فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْہِ ذَہَبَ یَتَنَاوَلُہَا بِیَدِہٖ فَأُخِذَ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ لِیْ وَلَا أَضُرُّکِ فَدَعَتِ اللّٰہَ فَأُطْلِقَ ثُمَّ تَنَاوَلَہَا الثَّانِیَۃَ فَأُخِذَ مِثْلَہَا أَوْ أَشَدَّ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ لِیْ وَلَآ أَضُرُّکِ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِہٖ فَقَالَ إِنَّکُمْ لَمْ تَأْتُونِی بِإِنْسَانٍ إِنَّمَآ أَتَیْتُمُونِی بِشَیْطَانٍ فَأَخْدَمَہَا ہَاجَرَ فَأَتَتْہُ وَہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ مَہْیَا قَالَتْ رَدَّ اللّٰہُ کَیْدَ الْکَافِرِ أَوِ الْفَاجِرِ فِیْ نَحْرِہٖ وَأَخْدَمَ ہَاجَرَ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ تِلْکَ أُمُّکُمْ یَا بَنِیْ مَاء السَّمَاءِ) (رواہ البخاری :، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا﴾) ” جب ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور بی بی سارہ) ایک ظالم حکمران کے ملک سے گزرے تو اس کے نوکر چاکروں نے بادشاہ کو کہا کہ ہمارے شہر میں ایک مسافر آیا ہے جس کی عورت بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے۔ ظالم بادشاہ نے حکم دیا۔ ابراہیم کو فوراً میرے سامنے پیش کرو۔ ان سے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یہ میری بہن ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بادشاہ سے فارغ ہو کر حضرت سارہ کے پاس آئے اور کہا اے سارہ! اس سرزمین میں میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھے پوچھا ہے کہ یہ تیرے ساتھ عورت کون ہے؟ تو میں نے تجھے اپنی بہن کہا ہے کیونکہ دینی رشتہ کے اعتبار سے تو میری بہن ہے، تجھے اس کے سامنے یہی کہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو میں جھوٹا ثابت ہوجاؤں۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو جبراً منگوایا جب وہ اس کے پاس پہنچائی گئی تو ظالم نے دست اندازی کی کوشش کی لیکن دھڑام نیچے گرا اور فریاد کرنے لگا اے نیک خاتون! اپنے رب سے میری عافیت کی دعا کر میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ کی دعا سے وہ اچھا ہوگیا پھر دوسری مرتبہ زیادتی کی کوشش کی دوبارہ پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ اللہ کی گرفت میں آیا۔ اب پھر التجا کی کہ اے نیک عورت ! اب کے بار پھر دعا کر میں اچھا ہوجاؤں تو میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ نے دعا کی تو اللہ کے فضل وکرم سے وہ پھر صحیح ہوگیا۔ اس بار اس نے اپنے نوکر کو بلا کر کہا تم کیسی عورت میرے پاس لائے ہو یہ عورت ہے یا شیطان ؟ ( بے شرم اپنی بے شرمی کو مٹانے کے لیے ایسا کہہ رہا تھا۔ (حالانکہ شیطان خودتھا) اس نے ہاجرہ کو حضرت سارہ کی خدمت میں دے دیا۔ جب حضرت سارہ جناب ابراہیم {علیہ السلام}کی خدمت میں آئیں تو آپ ” اللہ“ کے حضور نماز میں مصروف تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز کی حالت میں اشارہ سے پوچھتے ہیں کیا معاملہ ہوا؟ حضرت سارہ نے عرض کیا : اللہ ذوالجلال نے کافرو فاجر کی شرارت کو اس پر الٹ دیا ہے پھر سارا ماجرا ذکر کیا اور کہا بالآخر اس نے اپنی اس بیٹی کو خادمہ کے طور پر میرے حوالے کردیا ہے۔ جناب حضرت ابوہریرہ {رض}نے یہ حدیث مبارکہ ذکر کرنے کے بعد کہا اے بارش پر پلنے والو۔ (یعنی اے عرب قوم!) یہی تو تمہاری والدہ ہاجرہ ہیں۔“ مسائل: 1۔ مشکل کے وقت حوصلہ اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ 2۔ مشکل کے وقت صبر کرنا اور نماز پڑھنا بھاری کام ہیں مگر اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے آسان ہیں۔ 3۔ ہر شخص کی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری یقینی ہے۔