يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (١) (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : التغابن کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سورۃ التحریم کی ابتدا میں اس کا ثبوت نبی (ﷺ) اور آپ کے اہل خانہ کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ التحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے جو عام طور پر کھانے پینے کے بارے میں استعمال ہوتا ہے اس کا معنٰی ہے کہ کسی چیز کو حرام کرنا یاسمجھنا۔ اس سورت کا نام التحریم رکھا گیا اس لیے کہ اس کی پہلی آیت میں اس واقعہ کی نشاندہی کی گئی ہے جو نبی (ﷺ) کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات کی طرف سے پیش آیا۔ واقعہ اس طرح ہے کہ نبی کریم (ﷺ) عصر کی نماز کے بعد اپنی ازواج مطہرات کے ہاں باری باری کچھ وقت گزارتے تاکہ گھریلو حالات سے آگہی اور گھر والوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ آپ حضرت زینب (رض) کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کی خدمت میں شہد پیش کرتیں، بسا اوقات آپ ان کے ہاں زیادہ دیر ٹھہر جاتے۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ (رض) نے اس بات کو محسوس کیا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد حضرت سودہ (رض) کو ساتھ ملایا اور کہا کہ جب اللہ کے رسول ہمارے گھروں میں آئیں تو ہم آپ سے یہ بات کہیں کہ کیا آپ نے مغافیر کا رس پیا ہے، یہ ایسا پھول ہے کہ جس سے تھوڑی سی بوساند آتی ہے۔ ازواج مطہرات کو معلوم تھا کہ آپ خوشبو سے رغبت رکھتے ہیں اور بدبوسے انتہائی نفرت کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی حسب معمول اپنی بیوی زینب (رض) کے ہاں چند گھڑیاں بیٹھنے کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت عائشہ، حضرت سودہ اور حضرت حفصہ (رض) کے گھر تشریف لے گئے تو طے شدہ پروگرام کے مطابق تینوں نے آپ سے یہ بات کہی کہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے جس وجہ سے آپ کے منہ سے ہلکی سی بو محسوس ہو رہی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں نے مغافیر نہیں بلکہ شہد کھایا ہے۔ ازواج مطہرات کی گفتگو سے متاثر ہو کر آپ نے قسم اٹھا لی میں آئندہ شہد نہیں کھاؤں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی (ﷺ) ! اللہ آپ کو معاف فرمائے کہ آپ نے اپنی بیویوں کی خاطر اس چیز کو حرام کرلیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی قسموں کو حلال کرنے کے لیے تمہارے لیے کفارہ مقرر کردیا ہے، اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہ سب کو جاننے والا ہے۔ اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کا مؤاخذہ کرنے کی بجائے نہایت ہی کریمانہ انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا ہے۔ البتہ آپ کی یہ شان نہیں کہ اپنی بیویوں یا کسی دوسرے کی خاطر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیں۔ ان آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں غفور الرحیم، علیم اور حکیم ہونے کے ساتھ فرمایا ہے کہ وہ تمہارا مولیٰ ہے جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ خود مختار نہیں کہ جو دل میں آئے کرلیں بلکہ اللہ آپ (ﷺ) کا مولیٰ ہے یعنی تمام اختیارات اس کے پاس ہیں۔ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اس لیے ہر موقعہ پر آپ کی راہنمائی کرتا ہے۔ مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) کے اختیار میں میں نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ حلال و حرام میں تبدیلی کرسکیں۔ 2۔ کسی شخص کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے یا کسی کی خاطر حلال و حرام میں تبدیلی کرے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے نبی (ﷺ) کے تمام گناہوں کو معاف کردیا۔ 4۔ اللہ ہی سب کا خیرخواہ اور مولیٰ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکیم ہے۔ تفسیر بالقرآن: قسم کا کفارہ اور اس کے مسائل: 1۔ لغو قسم پر کسی قسم کا مؤاخذہ نہیں۔ (البقرۃ:225) 2۔ پختہ قسم کھانے کے کفارے کی تین صورتیں ہیں۔ دس مسکینوں کو کھانا کھلانایا کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنایہ کام نہ ہو سکیں تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ (المائدۃ:89) 3۔ قسموں کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (النحل : 91تا94) 4۔ صدقہ نہ کرنے پر قسم کھانا منع ہے۔ (النور :22) 5۔ بلا اراداہ ٹھائی جانے والی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ:225) 6۔ بہانے کے طور پر اللہ کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔ (البقرۃ:224) (آل عمران :77)