يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو (١) تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو (٢) اور عدت کا حساب رکھو (٣) اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو (٤) اور نہ وہ (خود) نکلیں (٥) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں (٦) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا (٧) تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے
فہم القرآن: ربط سورت : سورۃ التغابن کے اختتام میں مسلمانوں کو یہ سمجھایا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں کی بیویاں اور اولاد ان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی مرد کو ایسی بیوی کے ساتھ واسطہ پڑے اور وہ اس سے جان چھڑانا چاہئے تو وہ اسے طلاق دے کر جان چھڑا سکتا ہے۔ اسی لیے اس سورت کے آغاز میں طلاق کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور ان کی عدت شمار کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہار رب ہے۔ مطلقہ عورتوں کو ان کی عدت کے دور ان ان کے گھروں سے نہ نکالو مگر اس صورت میں کہ وہ واضح بے حیائی کا ارتکاب کریں، یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کا خیال رکھو۔ جس نے اللہ کی حدوں سے تجاوز کیا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تم نہیں جانتے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق کے دوران صلح کی راہ پیدا کردے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ بعض مسائل کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنے کے لیے نبی کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ مسلمان مسئلے کی اہمیت اور رفرضیت کو پوری طرح سمجھ جائیں۔ طلاق سے نہ صرف میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوتی ہے بلکہ اکثر اوقات انکی اولاد اور دو خاندانوں کے درمیان بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کو منفی اثرات سے بچانے کے لیے نبی (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے جس سے مراد آپ کی امت کو سمجھانا ہے۔ خطاب کے آغاز میں نبی (ﷺ) کو مخاطب فرمایا لیکن پھر ﴿طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ﴾کے الفاظ استعمال فرماکر خطاب کا رخ امت کی طرف پھیر دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ اے لوگو! جب تم اپنی بیویوں کو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو تو طلاق کے دن شمار کیا کرو۔ طلاق کے دوران تمہیں حق نہیں پہنچتا کہ تم بلاوجہ اپنی بیویوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرو۔ ایسا کرنا اللہ کی حدود کو توڑنے کے ساتھ اپنے آپ پر زیادتی کرنا ہے۔ طلاق کے لیے ” لِعِدَّتِھِنَّ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ طلاق حیض کے دوران یا مجامعت کے بعد نہیں دینی چاہیے۔ عدت کی ابتدا میں طلاق دینے سے عورت کی عدت تین مہینے سے زیادہ نہیں ہوگی اور عدت شمار کرنے میں غلطی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ یہ حدود اس لیے مقرر کی گئی ہیں کہ اگر میاں، بیوی ان کا خیال کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں ان کے درمیان اللہ تعالیٰ صُلح اور آشتی کے حالات پیدا کر دے۔ اس بنا پر مرد کو سمجھایا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اس کی عدت کے دوران گھر میں رہنے دے اس گھر میں رہنا اس کا حق ہے۔ عورت کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی گستاخی، زیادتی اور بے حیائی کی حرکت نہ کرے۔ میاں بیوی میں سے جو بھی ان باتوں کا خیال نہیں رکھے گا۔ نہ صرف وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا بلکہ وہ اللہ کی حدود کو توڑنے والا ہوگا۔ اللہ کی حدود توڑنے والے ظالموں میں شمار ہوں گے۔ مسائل: 1۔ بیوی کو طلاق اس کے طہر میں دینی چاہیے۔ 2۔ عدت کے دوران عورت کا اپنے گھر میں رہنا اس کا حق ہے۔ 3۔ عدت کے دوران عورت کو شرعی عذر کے بغیر گھر سے نکالنا اللہ کی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ 4۔ عورت اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارے تو اللہ تعالیٰ صُلح کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی معین کردہ حدود کا احترام کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : عدّت کے مسائل: 1۔ مطلقہ کی عدّت تین حیض ہے۔ (البقرۃ :228) 2۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (البقرۃ :234) 3۔ حیض نہ آنے کی صورت میں عدّت تین ماہ ہے۔ (الطلاق : 4، 5) 4۔ حاملہ کی عدّت وضع حمل ہے۔ (الطلاق :4) 5۔ عدّت کے دن شمار کرنے چاہئیں۔ (الطلاق :1)