إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ
اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو گے) (١) تو وہ اسے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا (٢) اللہ بڑا قدردان اور بڑا برد بار ہے (٣)۔
فہم القرآن: (آیت 17 سے 18) ربط کلام : مال کی آزمائش میں سرخرو ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا رہے صدقہ کرنا ” اللہ“ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ اوپر کی دوآیات میں ایمان والوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت میں صدقہ کرنے والوں کو یہ فرما کر تسلی اور ترغیب دی ہے کہ اگر تم اخلاص کے ساتھ صدقہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دو گے۔ وہ تمہارے صدقہ کو دوگنا تگنا کرے گا اور اس کے بدلے تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیکی کرنے والوں کا بڑا ہی قدر دان اور بردبار ہے۔ وہ تمہارے ظاہری اور باطنی حالات کو جانتا ہے اور ہر چیز پر غالب ہونے کے ساتھ بڑاحکیم ہے۔ یہاں صدقہ کے لیے قرض حسنہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ حسنہ کا معنٰی ایسا صدقہ ہے جس میں کسی قسم کی نمود و نمائش اور ایذا رسانی نہ پائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسے صدقہ کی قدر کرتا ہے۔ اس کی قدر شناسی کی انتہا دیکھیے کہ وہی سب کچھ عطا کرنے والاہے۔ لیکن جب غریب، یتیم اور دین کے کاموں پر خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے اپنے لیے صدقہ شمار کرتا ہے۔ حالانکہ ان مصارف پر خرچ کرنے سے انسان کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ حلیم کی صفت بتلا کر اشارہ دیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ اس میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر تمہارے بخل کرنے پر وہ تمہیں نہیں پکڑتا تو ایسا اس لیے ہے کہ وہ بڑا حلیم ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ ( عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ مَا نَقَصَ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَاد اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍا اِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب استحباب العفو والتواضع) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے۔ جو اللہ کی رضا کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا ہے۔“ ﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ:261) ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دینے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے مال میں برکت پیدا کرنے کے ساتھ اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیکی کرنے والے کا قدردان ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ غیب اور پوشیدہ باتوں کا علم رکھنے کے باوجود بڑا بردبار اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: صدقہ کرنے کے دنیا اور آخرت میں فوائد : 1۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 2۔ صدقہ کرنے والے کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ (البقرۃ:265) 3۔ صدقہ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔ ( البقرۃ:265) 4۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 5۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ:261) 6۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ:261) 7۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف :88) 8۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (التوبہ :99) 9۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران :134) 10۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39)