سورة التغابن - آیت 14

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں (١) پس ان سے ہوشیار رہنا (٢) اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (٣)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 14 سے 15) ربط کلام : اس فرمان سے پہلے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کا حکم ہوا اور پھر فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اللہ کی عبادت اور اس پر بھروسہ کرنے کے معاملے میں جو چیز آدمی کے راستے میں سب سے پہلے رکاوٹ بنتی ہے وہ بیوی، اولاد اور مال کی محبت ہے بسا اوقات یہ محبت اپنے آپ کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ثابت ہوتی ہے ایسی محبت سے احتیاط برتنے کا حکم ہے۔ جس کے لیے ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور اولاد بھی تمہارے دشمن ہوتے ہیں اور تمہارے مال تمہارے لیے آزمائش ہیں جن سے تمہیں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت میں کمی واقع نہ ہو۔ اسی سورت کی آیت 11میں مومنوں کو یہ بتلایا ہے کہ جو بھی مصیبت آتی ہے اس کے پیچھے اللہ کا حکم کار فرما ہوتا ہے لہٰذا مومن کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے۔ مصیبت کا معنٰی دکھ اور آزمائش ہے جو مومن کو اس کی بیوی اور اولاد سے بھی پہنچ سکتی ہے۔ گویا کہ مصیبت خارجی ذرائع سے بھی آتی ہے اور داخلی اسباب بھی اس کا سبب بنتے ہیں۔ خارجی اسباب میں بیوی، اولاد اور مال بھی اس کا سبب بنتے ہیں بالخصوص دینی زندگی اپنانے میں اکثر اوقات بعض بیویاں اور اولاد دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مومن کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں جو شخص اس آزمائش میں پورا اترے گا اللہ تعالیٰ اسے اجرعظیم سے سرفراز کرے گا۔ اگر بیوی اور اولاد آزمائش بن جائیں تو مومن کو بیوی اور اولاد کی خاطر اپنے دین کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں اور اولاد سے بچتے رہو یعنی ان کی خاطر اپنا دین خراب اور آخرت برباد نہ کرو۔ البتہ گھریلو زندگی اور اپنی عزت بچانے کے لیے ان کے ساتھ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کرو اور یاد رکھو کہ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ معاف اور رحم کرنے کے الفاظ استعمال فرما کر مومن کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر اپنے رب کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلو گے تو وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس آزمائش میں سرخرو فرمائے گا، جو شخص ان اصولوں پر عمل نہیں کرتا وہ نہ صرف پریشانیوں کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کی برادری اور معاشرے میں عزت بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو اس کی اولاد اور بیوی کی آزمائش سے بچانے کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (تَعْفُوْا) ” تم معاف کرو۔“ (وَتَصْفَحُوْا) ” اور ایک دوسرے کی اصلاح کرو۔“ (وَتَغْفِرُوْا) ” اور بخش دو۔“ یہاں تک مال کا معاملہ ہے یہ تو سراسر آزمائش ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس کے پاس مال آتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے راستے کو چھوڑ کر نافرمانی کے راستے پر چل نکلتا ہے اس بات کی اللہ تعالیٰ نے یوں نشاندہی فرمائی ہے : ﴿کَلَّآاِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی﴾ (العلق : 6، 7) ” ہرگز نہیں یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو غنی دیکھتا ہے۔“ ” حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اس پر گواہ ہے اور وہ مال کی محبت میں بڑا سخت ہے۔“ (العادیات : 6تا8) مسائل: 1۔ بعض بیویاں اور اولاد بھی آدمی کے دشمن بن جاتے ہیں۔ 2۔ نافرمان اولاد اور بیوی کے بارے میں حتیٰ الوسع معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو مومن کے لیے آزمائش قرار دیا ہے۔ 4۔ دوسروں کو معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بھی معاف کرتا ہے۔ 5۔ آزمائش میں پورا اترنے والے کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: مومن کے لیے آزمائش : 1۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت :2) 2۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ :214) 3۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ:214) 4۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضروری ہے۔ (آل عمران :142) 5۔ اللہ نے انسان کی آزمائش کے لیے موت وحیات کا سلسلہ بنایا ہے۔ (الملک :2) 6۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام :165) 7۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن :15)