يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ (١) مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید و فروخت (٢) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو (٣) یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔
فہم القرآن : (آیت 29 سے 30) ربط کلام : حرمت رشتہ اور حرمت اموال کا باہم معنوی تعلق ہے کیونکہ دونوں کا خیال نہ رکھنے سے رنجشیں پیدا ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حرمت پامال ہوتی ہے۔ سورت کی ابتدا میں اب تک خاندان، یتامیٰ اور لونڈیوں کے معاشرتی و مالی حقوق کا ذکر اور ان کے ساتھ مقدس رشتوں کی حرمت و تکریم کا بیان ہوا ہے۔ اب مالی حقوق کو قدرے وسعت کے ساتھ یوں بیان فرمایا کہ تم اپنے ہی مال آپس میں باطل طریقے کے ساتھ نہ کھا یا کرو۔ البتہ باہمی رضا مندی کے ساتھ ایک دوسرے سے لین دین کے ذریعے مال لینا اور کھانا جائز ہے۔ جس طرح تم اپنے مال ناجائز طریقے سے نہیں کھاسکتے اسی طرح تمہیں اپنے آپ کو قتل بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربانی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی مہربانی کا یہ تقاضا ہے کہ تم بھی مالی، اخلاقی اور جسمانی ظلم کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور مہربانی کا سلوک کرو۔ جذبۂ اخوت کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے مال جیسے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے ایسی ضمیریں استعمال فرمائی ہیں۔ جن سے باہمی قربت و شفقت کا احساس بیدار ہو سکے۔ جو شخص اس حکم اور نصیحت کے باوجود کسی پر مالی اور جانی ظلم کرے گا دنیا میں شاید وہ اس کی سزا سے بچ جائے لیکن آخرت کی سزا سے ہرگز نہیں بچ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے ظالموں کو سزا دینا ذرّہ برابر بھی مشکل نہیں۔ دنیا تو نہایت مختصر اور جلد ہی ختم ہوجانے والی ہے اور اس کے بعد اسے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جھونک دیا جائے گا۔ وہاں نہ ان جرائم کی معافی ہوگی اور نہ ہی سزا کے بغیر تلافی ہو سکے گی۔ آپ نے دھوکا دہی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی و بیشی، حرام چیزوں کی خرید و فروخت اور رشوت سے منع فرمایا۔ اب ہم احادیث کے حوالہ جات سے قدرے تفصیل کے ساتھ جائز اور ناجائز طریقوں کا ذکر کریں گے۔ قتل کے بارے میں سورۃ المائدۃ میں تفصیل بیان ہوگی۔ سود اور اس کی تمام قسمیں حرام ہیں : سورۃ البقرۃ کی آیت 275 میں سود کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے اس کی تفصیل مذکورہ آیت کے ضمن میں دیکھیں اور ہر وہ کاروبار ناجائز ہوگا جس میں سود یا اس کی کوئی شکل پائی جاتی ہو۔ 1۔ حضرت ابو امامہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا حق کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم لازم اور جنت حرام کردیتے ہیں۔ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا اگرچہ یہ حق تلفی تھوڑی ہو؟ فرمایا اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع الخ] 2۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے ہم کلام نہیں ہوگا اور نہ ہی انہیں نظر کرم سے دیکھے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! وہ کون ہیں؟ ایسے لوگ تو نامراد اور خسارے میں پڑگئے۔ آپ نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا۔[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ماپ تول میں کمی کرنا : حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اس جرم کی وجہ سے دنیا سے نیست و نابود کردی گئی۔ [ الأعراف :85] رسول اللہ (ﷺ) نے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کو فرمایا یقیناً تم دو ایسے کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو۔ جن میں کوتاہی کی وجہ سے پہلی قومیں تباہ ہوگئیں۔ [ رواہ الترمذی : کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان ] ایک مرتبہ رسول اللہ (ﷺ) بازار تشریف لے گئے ایک تولنے والے کو دیکھا کہ وہ کوئی جنس تول رہا ہے۔ اسے فرمایا تولیے مگر جھکتا ہوا۔[ رواہ النسائی : کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزن] حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام قرار دی ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والأصنام] حضرت ابو مسعود انصاری (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا۔ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب ثمن الکلب] تجارت میں دھوکا دینا حرام ہے : واثلہ بن اسقع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا : جس شخص نے کوئی عیب دار چیز عیب بتلائے بغیر فروخت کی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات] رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے سودا کرنے والے جب تک آپس میں جدا نہ ہوں انہیں سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔ اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف گوئی سے کام لیا تو ان کی تجارت میں برکت ہوگی اگر اس کا عیب چھپایا اور جھوٹ بولا تو سودے سے برکت اٹھالی جائے گی۔ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب إذا بین البیعان......] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ایک دن منڈی تشریف لے گئے اور ایک غلے کے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو انگلیوں پر نمی محسوس فرمائی۔ غلہ کے مالک سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی کہ اللہ کے رسول رات بارش ہوئی تو میں نے گیلا اناج نیچے کردیا آپ نے فرمایا تجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس نے دھوکا دیا وہ ہم سے نہیں ہے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، بابقول النبی (ﷺ) من غشنا فلیس منا] کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا غلط ہے : حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجبور آدمی کی تجارت سے فائدہ اٹھانے، دھوکے کی تجارت اور پھلوں کے پکنے سے پہلے سودا کرنے سے منع فرمایا۔ [ رواہ ابوداوٗد : کتاب البیوع، باب فی بیع المضطر ] ابوحرہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرو۔ کسی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا ہے۔ [ مسندأحمد : کتاب : اول مسند البصریین، باب حدیث عم ابی حرہ] چوری کا مال خریدنا : آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے جس شخص نے اپنا مال کسی کے پاس پایا وہ اس سے واپس لینے کا زیادہ حقدارہے جس نے مسروقہ مال خریدا ہے وہ اس کے چور کو تلاش کر ے۔ [ رواہ النسائی : کتاب البیوع، باب الرجل یبیع السلعۃ فیستحقھا مستحق ] مسائل : 1۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کا مال کھانا اور قتل و غارت کرنا حرام ہے۔ 2۔ ظالم اور زیادتی کرنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : مال کمانے کے باطل طریقے : 1۔ سود لینا۔ (البقرۃ:275) 2۔ رشوت لینا۔ (البقرۃ :85) 3۔ کم تولنا۔ (المطففین :1) 4۔ لوٹ مار کرنا۔ (المائدۃ :33) 5۔ غلط مقدمات کے ذریعے مال حاصل کرنا۔ (البقرۃ :188)