وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے (١) حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے (٢) اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے 8) ربط کلام : جو لوگ نبی آخرالزمان (ﷺ) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور آپ (ﷺ) پر الزامات لگاتے ہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ” اللہ“ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ یہ لوگ اس نور کو کبھی بجھا نہیں سکیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے پھیلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے ہر کوئی آپ (ﷺ) کو الصادق اور الامین کہتا تھا۔ تورات اور انجیل میں بھی آپ (ﷺ) کے اوصاف حمیدہ کا ذکر موجود ہے۔ اس لیے یہودی اور عیسائی اس انتظار میں تھے کہ جب نبی آخر الزّمان تشریف لائیں گے تو ہم ان کے ساتھ مل کر کافروں کو شکست دیں گے۔ (البقرۃ:89) لیکن جونہی آپ (ﷺ) نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ نے آپ کو جھوٹا اور جادو گر قرار دیا۔ جب کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں کے حوالے سے اور اہل مکہ اپنے دور کے دانشوروں سے جان چکے تھے کہ مکہ میں ایک رسول پیدا ہونے والا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے آپ (ﷺ) کی تکذیب کی۔ حالانکہ آپ (ﷺ) لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے تھے اس کے باوجود لوگ آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتے۔ اس موقع پر لوگوں کے الزامات کا صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے۔ یعنی آپ (ﷺ) اللہ پر جھوٹ نہیں بول رہے۔ ہاں الزام لگانے والے یادرکھیں! کہ نبی (ﷺ) کو جھوٹا کہنا اور آپ پر الزامات لگانا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور الزام لگانا ہے کیونکہ آپ (ﷺ) نے نبوت کا اعلان اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا اگرچہ کافر اسے ناپسند کرتے ہیں۔ نور سے مراد اللہ کی توحید اور دین حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے تورات اور انجیل کی صورت میں نازل فرمایا اور اب قرآن مجید کی شکل میں لوگوں کے سامنے ہے جو لوگ توحید اور دین کو جھٹلاتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ لوگ ظالم ہیں اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز نہیں کرتا۔ یہاں دین کی قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کفار اور مشرکین کی کوششیں اس قدر حقیر اور بے حیثیت ہیں جس طرح کوئی نادان سورج کی طرف منہ کر کے تھوکتا ہے یا آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے کہ سورج کی روشنی ختم ہوگئی اس سے بڑھ کر کون احمق ہوگا؟ یہ لوگ دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہاں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ دین ہر صورت پھیل کر رہے گا۔ ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ﴾ (المائدۃ:15) ” اے اہل کتاب ! بے شک تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو تمہارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے جو تم کتاب سے چھپاتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔“ (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی) (ارواء الغلیل حدیث نمبر :1268) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (المائدۃ:5) ” آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا ہے اور میں نے پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا، جو بھوک کی صورت میں مجبور ہوجائے اس حالت میں کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“ مسائل: 1۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ بولتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ظالم شخص کی راہنمائی نہیں کرتا۔ 3۔ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور یعنی دین اسلام کو ختم کردیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اس کا دین ضرور غالب اور مکمل ہوگا۔