إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ
اگر وہ تم پر کہیں قابو پا لیں تو وہ تمہارے (کھلے) دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور (دل سے) چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ (١)
فہم القرآن: (آیت 2 سے 3) ربط کلام : کفار کے ساتھ دوستی نہ کرنے کی ایک اور وجہ۔ کفار کے ساتھ دلی دوستی اور اپنا راز ظاہر کرنے سے اس لیے بھی روکا گیا ہے کہ اگر کافر مسلمانوں پر غلبہ پا لیں تو وہ اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اور زبان سے تکلیف دینے سے باز نہیں آئیں گے ان کی خواہش ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح کافر بن جائیں۔ اے مسلمانو! جس اولاد اور رشتہ داروں کی خاطر کفارکے ساتھ دلی دوستی رکھتے ہو اور انہیں اپنا راز بتلاتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اللہ ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ پوری طرح دیکھتا ہے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) نے اپنی اولاد اور اقرباء کی خاطر مسلمانوں کارازفاش کیا اس لیے مسلمانوں کو بتلایا اور سمجھایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے معاملات کا فیصلہ کرے گا توکسی کی اولاد اور رشتہ دار اس کے کام نہیں آئیں گے لہٰذا کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ! دنیا میں اس کا نقصان یہ ہوگا کہ اگر کافر تم پر قابو پالیں تو وہ اپنی زبانوں اور ہاتھوں سے تمہیں ہر قسم کا نقصان پہنچائیں گے۔ کتنا ہی ناعاقبت اندیش ہے وہ مسلمان جو کفارکی خاطر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتا ہے۔ دنیا اور آخرت کا نقصان بتلا کر مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے راز فاش کرنے اور کفار سے دلی دوستی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ جہاں تک راز فاش کرنے والے کی سزا کا تعلق ہے اس کے بارے میں علمائے امت کا فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کاراز فاش کرنے والا کافر ہوجاتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔ البتہ راز کی نوعیت کے پیش نظر عدالت کو سزا میں تخفیف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے لیے کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے پاس کسی صحابی نے اہل کتاب کے ایک شخص کی سفارش کی کہ یہ فن کتابت اور حساب کا ماہر ہے آپ اسے اپنا منشی اور کاتب رکھ لیں۔ امیر المومنین (رض) نے فرمایا کہ میں اسے مسلمانوں کا رازدان نہیں بنا سکتا۔ پھر اس آیت کا حوالہ دیا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ غیر مسلموں کو اہم عہدے نہیں دینے چاہئیں۔ اسی وجہ سے وہ فوج کے کمانڈروں کو حکم دیتے کہ جب کفار کے ساتھ تمہارے مذاکرات ہوں یا کہیں مشترکہ اجلاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح خلط ملط نہ ہونا کہ وہ تمہاری فوجی اور اخلاقی کمزوریوں سے واقف ہوجائیں۔ (سیرت الفاروق) مسائل: 1۔ کفار مسلمانوں پر غلبہ پالیں تو وہ مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے ضرور تکلیف پہنچائیں گے۔ 2۔ کفار کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو کافر بنا دیں۔ 3۔ قیامت کے دن کسی کو اس کی اولاد اور رشتہ دار کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا کیونکہ وہ لوگوں کے ہر عمل کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن مجرم کے کوئی کام نہیں آئے گا : 1۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ:254) 2۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : 34تا36) 3۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : 41، 42) 4۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار :19) 5۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم :31) 6۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ:166) 7۔ ” اللہ“ کے مقابلہ مجرموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (ہود :20) 8۔ ” اللہ“ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت :22)