سورة الحشر - آیت 24

هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے اللہ پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا (١) صورت بنانے والا، اسی کے لئے نہایت اچھے نام ہیں (٢) ہر چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے (٣) اور وہی غالب حکمت والا ہے (٤)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ جاری ہے۔ اَلْخَالِقُ: یہ نام خلق سے بنا ہے۔ خلق کا معنی تقدیر اور اندازہ ہے۔ الخالق صرف اللہ ہے وہی جن وانس، حیوانات، نباتات، جمادات اور ہر چیز کو اس کی فطرت کے مطابق پیدا کرنے کے ساتھ اس کی نشوونما کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے خالق کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔ کوئی کسی چیز کا بانی اور موجد تو ہوسکتا ہے لیکن خالق نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کسی کو خالق کہتا ہے پرلے درجے کی جہالت اور گناہ ہے۔ ﴿ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ﴾ (الانعام :102) ” یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پرنگہبان ہے۔“ اَلْبَارِیٔ: اللہ تعالیٰ ہی الباری ہے اس کے بغیر کوئی الباری نہیں ہوسکتا کیونکہ الباری کا معنی ہے ایسی چیز پیدا کرنے والا جس کا پہلے سے کلی طور پر وجود نہ ہو یہاں تک کہ اس کا مواد (Material) اور تصور بھی نہ پایا جائے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کو یوں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ﴿فَتُوْبُوْ اِلٰی بَارِئِکُمْ﴾ (البقرۃ:54) اَلْمُصَوِّرُ: شکل وصورت بنانے والا۔ دنیا میں جو لوگ مصوری کے پیشے سے منسلک ہیں اور مختلف چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں چاہے وہ (Painting) کے ذریعے ہی تصویر کشی کرتے ہیں ان کے ذہن میں کسی نہ کسی چیز کا تصور ہوتا ہے۔ جس میں آگا پیچھا کر کے کوئی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں المصّور نہیں کہا جا سکتا کیونکہ المصور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اسی نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے عربوں اور کھربوں صورتیں بنائیں اور قیامت اور قیامت کے بعد بھی بناتا رہے گا جو آپس میں مختلف ہیں اور ہوں گی انسان خود اپنے آپ پر غور کرے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو دوسرے کے ساتھ سو فیصد مماثلت رکھتا ہو اس لیے صرف ایک ہی ذات ہے جو حقیقی الخالق، الباری، المصور ہے۔ کیونکہ وہی عدم کو وجود دیتا ہے وہی جسم میں روح ڈالتا ہے اور وہی شکل وصورت میں امتیاز اور انفرادیت پیدا کرتا ہے۔ اس کے تمام نام اچھے ہیں اس کو اسی کے اچھے ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے کیونکہ زمین و آسمانوں کی کوئی چیز ایسی نہیں بے شک وہ بے جان ہو یا جاندار۔ سب اپنی اپنی زبان میں اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اس کے حضور اپنی فریاد رکھتے ہیں۔ اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے اور وہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہونے کے باوجود اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ﴿ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ (آل عمران :6) ” وہی ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔“ ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾ (التین : 1تا4) ” قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ اور طور سیناکی۔ اور اس پُر امن شہر کی۔ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔“ ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَاْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المومنون : 12تا14) ” اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔” پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے جس نام سے بھی پکارا جائے وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو اس پیدا فرمایا جب اس کا وجود بھی نہیں تھا۔ 3۔ زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔