يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو (١) اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے (٢) اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے (٣)
فہم القرآن: (آیت 18 سے 19) ربط کلام : جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ہر انسان کو اللہ سے ڈرنا اور قیامت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس سے پہلی آیات میں یہ بیان ہوا کہ کفار اور منافق اللہ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ انسان کو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ اسی اصول کے پیش نظر ایمانداروں کو حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے آنے والے کل یعنی قیامت کے لیے کیا بھیجا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو جو تم عمل کرتے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح جاننے والاہے۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے ” اللہ“ کو فراموش کردیا۔ جب انہوں نے ” اللہ“ کو فراموش کیا تو ” اللہ تعالیٰ“ نے بھی انہیں اس طرح کردیا کہ وہ خود اپنے آپ کو بھول گئے یہی لوگ نافرمان ہیں۔ یہاں قیامت کے لیے ” غَدٍ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ دنیا اور قیامت کا معاملہ آج اور کل کی طرح ہے گویا کہ جس طرح آج کے بعد کل کا آنا یقینی ہے اسی طرح ہی اس دنیا کے بعد قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ ہر انسان کی زندگی آج اور کل پر مشتمل ہے آج سے مراد دنیا کی زندگی ہے اور کل سے مراد قیامت، فرق یہ ہے کہ یہ زندگی مختصر ہے اور آنے والا کل طویل ہی نہیں بلکہ لامتناہی ہوگا۔ آج کے دکھ مرنے کے ساتھ ختم ہوجائیں گے لیکن کل کے دکھ ختم نہیں ہوپائیں گے لہٰذا انسان کو اپنے آنے والے کل کی تیاری کرنا چاہیے اور اس کا پختہ ایمان ہونا چاہیے کہ جو کچھ میں کرتاہوں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ مسلمان کو ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا۔ اللہ تعالیٰ کوفراموش کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ انسان خود فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان جب خود فراموشی کا شکار ہوجائے تو اسے حقیقی نفع ونقصان کا شعور نہیں رہتا جس وجہ سے وہ اللہ کی ذات اور اس کے احکام کوفراموش کردیتا ہے، ایسا شخص ہر وہ کام کرتا ہے جس پر اس کا دل آتا ہے۔ سورۃ الجاثیہ کی آیت 23میں اس بارے میں بتلایا ہے کہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنے نفس کو الٰہ بنالیا ہے اور وہ سب کچھ جاننے کے باوجود گمراہ ہوچکا ہے۔ جو لوگ اس طرح زندگی گزارتے ہیں حقیقت میں وہ اپنے رب کے نافرمان ہوتے ہیں۔ نافرمان لوگ قیامت کے دن بے انتہا نقصان پائیں گے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ) (رواہ البخاری : باب قول النبی (ﷺ) کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْل) ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔“ ” حضرت عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَالِ، قال الترمذی ھذا حدیث حسن صحیح) مسائل: 1۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 2۔ ہر انسان کو آنے والے کل کے لیے سوچنا چاہیے کہ اس نے اس کے لیے کیا بھیجا ہے۔ 3۔ مسلمانوں کو ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کوفراموش کردیا اور بالآخر خود فراموشی کا شکار ہوئے۔ 4۔ خودفراموشی کا شکار ہونے والے لوگ اپنے رب کے نافرمان ہوتے ہیں۔ 5۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل سے باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن : ایمانداروں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے : 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ:41) 2۔ اے عقل مندو! اللہ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق :10) 3۔ اے عقل مند و ! اللہ سے ڈر جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:100) (الاحزاب :70) 4۔ تم ” اللہ“ سے ڈرو گے تو ” اللہ“ اسے تمہارے لیے روشنی بنا دے گا۔ (الانفال :29)