لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
یہ سب ملکر بھی تم سے لڑ نہیں سکتے ہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند مقامات میں ہوں یا دیواروں کی آڑ میں ہوں (١) ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے (٢) گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں (٣) اس لئے یہ بے عقل لوگ ہیں (٤)۔
فہم القرآن: (آیت 14 سے 17) ربط کلام : منافقین کی بزدلی کا ذکرجاری ہے۔ نبی معظم (ﷺ) کو منافقین کی سازش بتلانے کے بعد یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ منافق اور یہودی کبھی بھی اکٹھے ہو کر تمہارے سامنے نہیں آسکتے، سوائے اس کے کہ وہ اپنے قلعوں میں رہ کر یا دیواروں کی اوٹ میں تمہارے خلاف لڑنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کے آپس میں شدید اختلافات ہیں۔ آپ انہیں متحد سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے دل آپس میں ایک دوسرے سے دور ہیں۔ ایسا اس لیے کہ یہ لوگ حقیقی سمجھ نہیں رکھتے۔ ان کا حال ان لوگوں کی طرح ہے جو ان سے تھوڑی مدت پہلے اپنے کیے کی سزا پا چکے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے لیے اذّیت ناک عذاب ہے۔ پہلے لوگوں سے مراد اہل مکہ ہیں جو بدر میں ذلیل ہوئے۔ منافقوں کی چال اور مثال شیطان جیسی ہے کہ وہ انسان کو کفر پر اکستا ہے جب انسان کفرکا کام کربیٹھتا ہے تو شیطان اس سے یہ کہہ کر بری الذّمہ ہوجاتا ہے کہ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتاہوں۔ شیطان اور اس کے ساتھیوں کا انجام جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، ظالموں کی یہی سزا ہوگی۔ اس فرمان میں آپ (ﷺ) کو اطلاع دی گئی کہ منافق اور یہودی اکٹھے ہو کر آپ کے خلاف نہیں لڑیں گے کیونکہ ان کے دل ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ اس سے مراد بنو نضیر کے آپس میں اختلافات بھی ہو سکتے ہیں جو بظاہر اکٹھے تھے مگر ان کے دل ایک دوسرے سے دورتھے لیکن اسلام دشمنی میں اکٹھے تھے۔ مکہ کے لوگ اپنی جگہ ذلیل ہوکرواپس پلٹے اور منافق اور یہودی اپنے اپنے مقام پر ذلیل ہوئے۔ یہاں منافقین کے کردار کو شیطان کے کردار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح شیطان چھپ کر بار، بار انسان کو گمراہ کرتا ہے اسی طرح ہی منافق بار، بار اور چھپ چھپ کر مسلمانوں کا نقصان کرتے ہیں۔ منافق مشکل میں اسی طرح ہی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ جس طرح شیطان انسان سے برے کام کرواکر اپنے آپ میں کہتا ہے کہ میں تو رب العالمین ڈرتاہوں اس لیے تم سے الگ ہوتاہوں۔ جیسا کہ اس نے غزوہ بدر کے موقع پر کیا تھا۔ تفصیل کے لیے سورۃ الانفال کی آیت 48کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے ڈرنے والے لوگ حقیقت میں سمجھ دار نہیں ہوتے۔ 2۔ حقیقی سمجھ یہ ہے کہ انسان صرف اللہ سے ڈرتارہے۔ 3۔ منافق کی چال اور انداز شیطان کی مانند ہوتا ہے۔ 4۔ شیطان کی طرح منافق بھی مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ 5۔ شیطان اور اس کے ساتھی جہنم میں جھونکیں جائیں گے۔ 6۔ کفارمخلص ہو کر آپس میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن: مسلمان کو صرف اللہ سے ڈرنا چاہیے : (البقرۃ:150) (المائدۃ:28) (یونس :15) (الزمر :3) (النور :52) (الانفال :48) (النساء :77)