وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال (١) اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : مال فئی میں بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی حصہ رکھنا چاہیے اور پہلے فوت شدگان کے لیے دعا کرنی چاہئے۔ مالِ فئی میں ان لوگوں کا حصہ بھی شامل ہے جو ہجرت میں پہل کرنے والوں کے بعد ایمان لانے والے ہیں کیونکہ ان کا تعلق اور محبت ان مومنوں کے ساتھ ہے جو ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ بعد میں مسلمان ہونے والے نہ صرف فوت ہونے والے مومنوں کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ان کے لیے ان الفاظ میں دعا گو ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمارے ان بھائیوں کی بشری کمزوریوں کو معاف فرمادے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں کو ایمانداروں کے بارے میں حسد و کینہ سے محفوظ فرما۔ اے ہمارے رب! تو بڑا ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ دین اسلام کی یہی تعلیم نہیں کہ مال فئی میں بعد میں آنے والوں کا حصہ ہونا چاہیے، دین کی یہ بھی تعلیم ہے کہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے ان ایمانداروں کے لیے بھی بخشش کی دعا کرنی چاہئے جو پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ان کی خدمات سے ان کے بعد آنے والے مسلمان مستفید ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی موجود مسلمانوں کے لیے بھی دعا ہونی چاہیے۔ کہ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ایمانداروں کے بارے میں حسدوکینہ سے محفوظ فرما بے شک تو بڑا شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ یَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْیَفْعَلْ مَا شَآءَ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ﴿ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّه ﴾ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب مجھے معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے، پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور انہیں پر پکڑتا بھی ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا! اب وہ جو چاہے کرے۔“ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔) “ فوت شدگان کے بارے میں حضرت نوح اور نبی (ﷺ) کی دعائیں : ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ (نوح :28) ” میرے رب مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے۔“ (اَللّٰہُمّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِیمَانِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِسْلاَمِ اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ) (رواہ ابوداؤد : باب الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ قال البانی ہذا حدیث صحیحٌ) ” اے اللہ ہمارے زندہ اور فوت شدگان اور چھوٹے، مذکر اور مؤنث جو حاضر ہیں اور جو غائب ہیں سب کو معاف فرما۔ اے اللہ ! ہم میں جو بھی زندہ رہے تو اسے ایمان پر قائم و دائم رکھنا اور ہم میں سے جس کو بھی موت آئے اسے اسلام پر موت آئے۔ اے اللہ! ہمارے اجر کو ضائع مت کرنا اور نہ ہی ہمیں بعد میں کوئی ذلت اٹھانی پڑھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے نیک بندے اپنے رب سے اپنے اور اپنے سے پہلے فوت شدگان کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔ 2۔ ایماندار لوگ دوسرے ایمانداروں کے بارے میں حسد وبغض سے پناہ مانگتے ہیں۔ 3۔ ایمانداروں کا عقیدہ ہے کہ ان کا رب بہت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔