فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ
پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی (١)
فہم القرآن: (آیت 75 سے 82) ربط کلام : عظیم نشانیوں اور نعمتوں کے تذکرے کے بعد عظیم خالق کی تسبیح کرنے کا حکم اس کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے آسمان سے قرآن مجید جیسی عطیم کتاب نازل کی ہے۔ اہل مکہ اپنے باطل عقیدہ پر اصرار کرنے کی وجہ سے قرآن کی مخالفت کرتے تھے حالانکہ اس بات کے ان کے سامنے درجنوں دلائل دیئے گئے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جارہا لیکن وہ اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ کسی صورت قرآن مجید کو مِن جانب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی قسم اٹھا کر یقین دلایا کہ یہ قرآن کسی غیر کی طرف سے نازل نہیں کیا گیا اسے تو اس رب نے نازل کیا ہے جو ستارے بنانے اور انہیں فضا میں ٹھہرانے والا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہمیں گرتے ہوئے ستاروں کی قسم ہے اگر تم سمجھنے کی کوشش کرو تو یہ بہت بڑی قسم ہے، بڑی قسم سے مراد ایک تو قسم اٹھانے والی ذات سب سے اعلیٰ اور بڑی ہے پھر جن ستاروں کی قسم اٹھائی جارہی ہے وہ کس قدر بڑے ہیں۔ ان کے نظام پر غور کرو کہ اس ذات نے کس طرح کھرب ہا ستارے پیدا کیے ہیں۔ ان میں چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی جو اس کے حکم سے جھڑتے اور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تاروں کی منازل کی قسم کھائی ہے۔ منازل سے مراد تاروں کے مدار یا فضاکاوہ حصہ ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں تارے گرتے ہیں اور زمین پر آنے کی بجائے فضا میں ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس قسم میں ایک طرف ستاروں کے وسیع ترین نظام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسری طرف قرآن مجید کی عظمت بیان فرمائی ہے۔ اس بنا پر ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید عظمت کا حامل ہے اور یہ لوح محفوظ میں درج ہے، اسے وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک باز ہیں۔ یعنی وہ فرشتے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت اور تنزیل پر مقرر کیا ہے اس سے کفار کے الزام کی تردید کی گئی ہے جو کہتے ہیں کہ نبی (ﷺ) قرآن خود بنا لیتے ہیں یا اس پر شیطان نازل کرتا ہے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی کی کسی اعتبار سے دخل اندازی نہیں ہے۔ کیا تم اس عظیم کتاب کا انکار کرتے ہو جسے رب العالمین نے نازل فرمایا ہے لیکن تم دنیا کی خاطر اسے جھٹلائے جارہے ہو۔ ” تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ“ کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1۔ کفار کا خیال تھا کہ اگر ہم نے قرآن کی دعوت کو مان لیا تو لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے جس سے ہمیں کاروباری طور پر نقصان پہنچے گا۔ 2۔ جس طرح زندگی کے لیے کھانا پینا لازم ہے اس طرح انہوں نے قرآن کی مخالفت کو اپنے لیے لازم سمجھ رکھا ہے۔ 3۔ جس طرح دوسری نعمتوں کا شکرادا نہ کرکے اللہ تعالیٰ کو جھٹلاتے ہو اسی طرح قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کو جھٹلاتے ہو۔ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ﴿وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ﴾ قَالَ شُکْرُکُمْ تَقُولُونَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَکَذَا وَبِنَجْمِ کَذَا وَکَذَا) (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ الواقعۃ قَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ صَحِیحٌ لاَ نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ إِسْرَائِیلَ) حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے (وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری ناشکری تو یہاں تک ہے کہ تم کہتے ہو فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔“ مسا ئل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ یہ قرآن عظیم مرتبہ کتاب ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی قسم کو معمولی قسم نہیں سمجھنا چاہیے۔ 3۔ قرآن مجیدبڑی بلند پایا کتاب ہے۔ 4۔ قرآن مجید لوح محفوظ میں درج ہے۔ 5۔ قرآن مجید کو جو پاک باز فرشتے ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔ 6۔ قرآن مجید کو رب العالمین نے نازل فرمایا ہے۔ 7۔ قرآن مجید کے کسی مسئلے کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کی عظمت : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو کچھ نازل کیا ہے وہ مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل :82) 2۔ قرآن مجید کو اللہ نے ہی نازل فرمایا ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ (الحجر :9) 3۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل :88) 4۔ یہ کتاب مبین ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ (البقرۃ:2) 5۔ قرآن مجید میں کوئی کجی نہیں ہے۔ (الکہف :1) 6۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت اور مومنوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس :57)