سورة النسآء - آیت 5

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 5 سے 6) ربط کلام : سابقہ فرامین میں یتامیٰ اور عورتوں کے مالی حقوق کی ادائیگی کا حکم تھا۔ اب فرمایا کہ یتیموں کو ان کا مال واپس لوٹاتے ہوئے اچھی طرح اندازہ کرلو کہ کہیں وہ ناتجربہ کاری یا صغر سنی کی وجہ سے اپنا مال ضائع نہ کربیٹھیں۔ قرآن مجید نے دوسری آزمائشوں کے ساتھ مال کو بھی آدمی کے لیے ایک بڑی آزمائش اور فتنہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رزق حلال کو اللہ تعالیٰ کا فضل‘ نعمت‘ زندگی کا لازمہ اور اسے تقویت کا باعث ٹھہرایا ہے۔ یتیموں کے لیے بالخصوص مال سہارا اور تقویت کا باعث ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کا کمانے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ ان کی جائیداد کا بھی کوئی دوسرا نگران ہوتا ہے۔ یہاں یتیموں کے سر پرست کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان کے مال کو اپنا تصور کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی کرے اور جب تک یتیم میں فہم و شعور اور مال سنبھالنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو۔ اس وقت تک ان کا سرپرست ان کے مال سے ان کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کرتا رہے۔ ان کی طرف سے اگر کوئی مطالبہ یا غلط فہمی پیدا ہو تو نہایت محبت اور پیار کے ساتھ ان کو بہلاتا اور سمجھاتا رہے۔ یہاں تک کہ یتیم اپنا مال سنبھالنے کے قابل ہوجائے۔ یتیموں کے لیے ناسمجھ کا لفظ دو وجہ سے استعمال ہوا ہے۔ ایک تو یہ مال کی حفاظت اور اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نو عمر اور یتیم ہونے کی وجہ سے یہ لوگوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر اپنے سر پرست اور خیر خواہ سے اکثر بدظن ہو کر مال واپس لے کر اسے ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے : (أَلَا مَنْ وَلِیَ یَتِیْمًا لَہٗ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکْہٗ حَتّٰی تَأْکُلَہٗ الصَّدَقَۃُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزکاۃ، باب ماجاء فی الزکاۃ من مال الیتیم] ” خبردار! جو کسی یتیم کا سرپرست بنے اور یتیم کے پاس مال ہو تو وہ اس کے مال کو کارو بار میں لگائے۔ کہیں آہستہ آہستہ زکوٰۃ سے اس کا مال ختم نہ ہوجائے۔“ یتیموں کے مال کی حفاظت کے پیش نظر یہ اصول بھی قائم فرمایا کہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجائیں اور ان میں مالی معاملات سمجھنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔ ان کا مال اس وقت تک نہیں لوٹانا چاہیے جب وہ شعور کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کا مال لوٹاتے ہوئے اس پر گواہ بنالینے چاہییں تاکہ جس آدمی نے سر پرستی کی صورت میں ان کی خدمت کی ہے وہ ہر قسم کے الزامات سے محفوظ رہ سکے۔ سر پرست کو یہ حکم بھی دیا کہ اگر وہ امیر ہے تو یتیموں کے مال کی نگرانی اور سرپرستی کے عوض ان کے مال سے کچھ نہ لے اور اگر اس کی اپنی گزران تنگ ہے تو مناسب طریقے سے اس میں سے کھا سکتا ہے۔ یتیم اور ان کے سرپرست کو ہر دم خیال رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حساب و کتاب کو خوب جانتا ہے اور اس کے ہاں تمام معاملات لکھے اور پیش کیے جاتے ہیں اور قیامت کے دن پائی پائی کا حساب لے گا۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو لوگوں کے لیے استحکام کاذریعہ بنایا ہے۔ 2۔ یتیموں سے نرم لہجے میں پیش آنا چاہیے۔ 3۔ یتیموں کا مال کھانا منع ہے۔ 4۔ یتیموں کو آزمانے اور ان میں سمجھداری دیکھنے کے بعد ان کا مال ان کے سپرد کرنا چاہیے۔ 5۔ یتیموں کا کفیل مالدار ہو تو اسے ان کے مال سے کچھ نہیں لینا چاہیے۔ 6۔ یتیموں کا کفیل تنگ دست ہو تو معروف طریقے سے ان کے مال میں سے کھا سکتا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔