كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ
ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا (١)۔
فہم القرآن: (آیت 9 سے 17) ربط کلام : قیامت اور نبی (ﷺ) کی رسالت کو جھٹلانے والوں میں سر فہرست نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی تھی جن کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ قرآن مجید نے موقع کی مناسبت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ یہاں منکرین کو سمجھانے کے لیے ایک مرتبہ پھر قوم نوح کا ذکر کیا ہے۔ قوم نوح بھی ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنے رسول کو یکسر طور پر مسترد کردیا، جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی برے انجام سے دو چار ہوئے جس کا اس موقع پر یوں ذکر کیا جا رہا ہے کہ قوم نوح بھی ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کو جھٹلاچکی ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے انہیں ساڑھے نوسوسال سجھایا مگر قوم نے انہیں ہر بار پاگل کہا اور اس پر زیادتی کی اور کہا کہ اے نوح! تو باز نہ آیا تو ہم تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ اس صورتحال میں نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے فریاد کی کہ میرے رب میں اپنی قوم کے سامنے مغلوب ہوگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ ” نوح نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو تیری طرف رات دن بلایا ہے۔ مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور دور بھاگ گئے۔ میں نے جب بھی تیری بخشش کے لیے انہیں بلایاتو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔“ (نوح : 5تا8) ﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (نوح :23) ” اور کہا انہوں نے کہ اپنے معبودوں اور ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو ہرگز نہ چھوڑنا۔“ ﴿وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِِنَّکَ اِِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا﴾ (نوح : 26، 27) ” اور حضرت نوح نے کہا کہ اے رب! تو روئے زمین پر کسی کافر کو نہ چھوڑ۔ اگر انہیں تو نے چھوڑ دے گا تو یقیناً یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے۔“ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کو قبول فرما لیا۔ جس کے نتیجے میں ان پر زوردار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے اور زمین کا اوپر نیچے کا پانی مل گیا جس سے اس قوم کو غرق کردیا گیا۔ ” نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک تیری قوم میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا مگر جو پہلے ایمان لا چکا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس پر غمگین نہیں ہونا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ اور مجھ سے ظالموں کے بارے میں گفتگو نہ کرنا یقیناً وہ غرق کیے جائیں گے۔ وہ کشتی بناتا رہا اور جب اس کے پاس سے اس کی قوم کے سردار گزرتے تو اس سے مذاق کرتے۔ وہ کہتا اگر تم ہم سے مذاق کرتے ہو تو ہم بھی تم سے مذاق کریں گے جس طرح تم مذاق کرتے ہو۔ پس تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا۔ کون ہے؟ جس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والاہے ؟ یہاں تک کہ ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابل پڑا۔ ہم نے فرمایا بیڑے میں ہر جنس کے دو دو جوڑے سے نرومادہ اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلو اور ان کو بھی جو ایمان لے آئے سوائے اس کے جس پر پہلے بات ہوچکی۔ تھوڑے لوگ تھے جو اس پر ایمان لائے۔ نوح نے کہا اس میں سوار ہوجاؤ۔ کشتی کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ کے نام کے ساتھ ہے۔ یقیناً میرا رب بہت بخشنے اور نہایت رحم کرنے والاہے۔ کشتی ان کو لے کر پہاڑوں جیسی موجوں میں چلی جارہی تھی، نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی اور وہ ایک الگ جگہ میں تھا۔ اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ شامل نہ ہو۔“ (ہود : 36تا42) ﴿قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَ حَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ﴾ (ہود :43) ” اس نے کہا میں جلد ہی کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والانہیں۔ مگر جس پر وہ رحم کرے اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی تو وہ غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا۔“ مسائل: 1۔ اہل مکہ تم سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی انہیں جھٹلا چکی ہے۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان قوم نے پاگل کہا اور اس پر زیادتی کی۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو اپنے سامنے کشتی بنانے کا حکم دیا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم سے انتقام لیا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور جگہ جگہ زمین میں چشمے جاری کردیئے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کے واقعہ کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا ہے۔ تفسیربالقرآن : قرآن مجید میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ : 1۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک ” اللہ“ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (المومنون :23) 2۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی نازل فرمائی۔ (الصٰفٰت :79) 3۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے وحی کا نازل فرمائی۔ (النساء :163) 4۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔ (مریم :58) 5۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا۔ (الانعام :84) (الفرقان :37) 6۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف :64)