سورة النجم - آیت 17

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 17 سے 18) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ جس میں معراج کے واقعہ کا ذکر جاری ہے۔ نبی معظم (ﷺ) نے جبریل امین، سدرۃ المنتہیٰ اور اپنے رب کی قدرت کی عظیم ترین نشانیوں کو براہ راست دیکھا۔ لیکن آپ (ﷺ) کی آنکھ نہ جھپکی اور نہ ہی آپ کی نظر ادھر ادھر اٹھی بلکہ آپ پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ اپنے رب کی قدرت کی عظیم نشانیوں کو دیکھتے رہے جن کے بارے میں آیت گیارہ میں ارشاد ہوا ہے کہ آپ (ﷺ) نے جو کچھ دیکھا آپ کے دل نے اس کی تصدیق کی۔ اب ارشاد ہوا ہے کہ آپ (ﷺ) کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ ادھرا دھر اٹھی۔ گویا کہ آپ نے پوری یکسوئی، کامل توجہ، بھرپور اعتماد اور پورے وقار کے ساتھ شہنشاہ عالم کی عظیم قدرت کو ملاحظہ فرمایا۔ اس موقعہ پر آپ (ﷺ) کی شخصیت اور روحانی قوت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو جسمانی اور روحانی طور پر ایسی قوت اور صلاحیت عطا فرمائی تھی جو آپ کے سوا کسی کو عطا نہیں کی گئی۔ کیا آپ (ﷺ) اپنے رب کو دیکھاتھا؟: جن صحابہ کی توجہ آپ (ﷺ) کی شخصیت اور معراج کے واقعہ کی طرف مبذول رہی ان کا خیال ہے کہ آپ (ﷺ) نے اپنے رب کی زیارت کی ہے، اور جن صحابہ کی توجہ رب کی کبریائی اور قدرتوں کی طرف گئی ہے ان کا اعتقاد ہے کہ آپ (ﷺ) نے رب کبریا کو براہ راست نہیں دیکھا اور نہ اسے کوئی دیکھ سکتا ہے۔ 1۔ صحابہ کرام میں نہایت ہی قلیل تعداد ان لوگوں کی ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبی (ﷺ) نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔ ان میں سر فہرست حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جن کا فرمان ہے کہ نبی (ﷺ) نے اپنے رب کی دل کے ساتھ زیارت کی ہے، گویا کہ آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کے وہ بھی قائل نہیں تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی﴾ قَالَ رَاٰہُ بِفُؤَادِہٖ مَرَّتَیْنِ.) (رواہ مشکوٰۃ: باب رؤیۃ اللّٰہ) ” حضرت ابن عباس (رض) ﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے اپنے پروردگار کو اپنے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ دیکھا۔“ بعض مفسرین نے ابن عباس (رض) کے بیان کو نقل کرنے کے باوجود لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ آپ (ﷺ) نے اپنے رب کی زیارت کی ہے حالانکہ ان کا فرمان ہے کہ آپ (ﷺ) نے دل کے ساتھ اپنے رب کی زیارت کی ہے نہ کہ آنکھ کے ساتھ۔ حضرت ابوذر (رض) کا نبی (ﷺ) سے سوال، آپ کا جواب : (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ أَنّٰی أَرَاہُ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ نور أنی أراہ وفی قولہ رأیت نورا) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے استفسار کیا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں؟ آپ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں۔“ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عالم نے آپ (ﷺ) سے سوال کیا دنیا میں کون سی جگہ سب سے بہتر ہے؟ آپ جبریل (علیہ السلام) کے آنے تک خاموش رہے جب جبریل آ گئے تو آپ (ﷺ) نے ان سے سوال کیا انہوں نے کہا جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا یعنی مجھے بھی اتنا ہی علم ہے جتنا آپ کو ہے لیکن میں نے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے پھر جبریل (علیہ السلام) نے کہا کہ آج میں اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب ہوا ہوں جتنا قریب میں کبھی نہیں ہوا آپ (ﷺ) نے سوال کیا اے جبریل (علیہ السلام) کتنے قریب؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیاں صرف ستر ہزار نور کے پردوں کا فاصلہ تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ دنیا میں سب سے بری جگہ بازار اور سب سے اچھی جگہ مساجد ہیں۔“ (مشکوۃ المصابیح : بَاب الْمَسَاجِد ومواضع الصَّلَاۃ، قال الشیخ البانی ہذا حدیث حسن) حضرت عائشہ (رض) کا فرمان اور ان کی دلیل : ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو بلاشبہ وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں“ اور جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ آپ غیب جانتے ہیں تو وہ بھی جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ﴾) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔“ (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ وَالنَّجْمِ) مسائل: 1۔ آپ (ﷺ) مشکل سے مشکل حالات میں بھی گھبراتے نہیں تھے۔ بلکہ اپنے حواس قائم رکھتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر اپنے رسول (ﷺ) کو بڑی بڑی نشانیاں دیکھائیں۔