أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ
کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 12 سے 16) ربط کلام : نبی (ﷺ) نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے بیان کیا لیکن کفار اسے ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نبی (علیہ السلام) نے جبریل امین کو دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب ہی جنت الماویٰ ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر اللہ تعالیٰ کی انواروتجلیات کا مسلسل نزول ہوتا ہے۔ ” اَلْمُنْتَہٰی“ کا معنٰی انتہا ہے جس کا اہل علم نے یہ مفہوم لیا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کی پہنچ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے نیچے کی مخلوق کے لیے عالم سفلٰی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس سے اوپر کے لیے سدرۃ المنتہیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس سے اوپر ” اللہ“ کی مخلوق میں سے کوئی نہیں جاسکتا گویا کہ یہاں سے حریم کبریا کا مقام شروح ہوجاتا ہے اور سدرۃ المنتہیٰ جنت الماویٰ کے قریب ہے۔ الماویٰ کے بارے میں اہل تفسیر نے تین باتیں لکھی ہیں۔ 1۔ جنت کا اعلیٰ ترین مقام۔ 3۔ الماویٰ میں قیامت سے پہلے شہیدوں کی روحوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ 3۔ سدرۃ المنتہیٰ کا ایک منظر : ” حضرت ثابت بنانی (رح) حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : میرے پاس ایک براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا جانور تھا‘ جس کا قد لمبا اور وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا قدم اس کی حد نگاہ پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچا۔ میں نے براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء (علیہ السلام) باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعتیں ادا کیں۔ میں باہر نکلا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ایک شراب اور ایک دودھ کا برتن پیش کیا تو میں نے دودھ کو پسند کیا۔ اس پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : آپ نے فطرت کو پسند فرمایا ہے پھر آسمان کی طرف ہمارا عروج شروع ہوا۔ اس کے بعد حضرت انس (رض) نے سابق حدیث والا مضمون بیان کیا۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا۔ تب حضرت آدم (علیہ السلام) میرے سامنے تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا انہوں نے میرے لیے خیروبرکت کی دعا کی۔ اسی طرح آپ نے فرمایا : تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) جنہیں حسن کا آدھا حصہ عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ پھر ساتویں آسمان کے متعلق بتایا کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ وہ بیت المعمور سے پیٹھ ٹکائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جن کی باری پھر کبھی نہیں آتی۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے جایا گیا۔ اس بیری کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے اور اس کے بیر مٹکوں کے برابر تھے۔ جب اللہ کے حکم سے اس درخت کو کسی ڈھانپنے والی چیز نے ڈھانپ لیا، تو اس کی حالت بدل گئی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کوئی بھی اس درخت کی خوب صورتی کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو وحی بھیجنی تھی اس کا نزول فرمایا اور مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر میری منزل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھی۔ انہوں نے پوچھا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے بتایا دن رات میں پچاس نمازیں۔ انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں۔ بلا شبہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کو آزما کردیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف واپس گیا اور درخواست پیش کی۔ یا رب ! میری امت کے لیے کمی کر دے۔ مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف پلٹا اور ان کو بتایا کہ پانچ گھٹا دی گئیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ کی امت اس کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی، اپنے رب کی طرف جائیں اور ان سے مزید تخفیف کی فریاد کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اسی طرح میرا، اپنے پروردگار اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف آنا جانا مسلسل جاری رہا، حتیٰ کہ مجھے حکم ہوا، یا محمد (ﷺ) ! اب ہر دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ ہر نماز کا اجر دس کے برابر ہے۔ اس طرح یہ ثواب میں پچاس نمازیں ہیں۔ جس کسی نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس پر عمل کرلیا تو اس کے لیے دس گنا ثواب ہوگا۔ جس نے برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر عمل کرلیا تو صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ انہیں تمام احوال بتائے تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس جائیں اور ایک دفعہ پھر مزید کمی کی درخواست کریں۔ اس پر آپ نے فرمایا میں اتنی بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوا ہوں کہ اب مجھے حیا آتی ہے۔“ (رواہ مسلم : باب فی المعراج) دنیا میں سدرۃ کا معنی بیری ہے : سترہویں صدی عیسوی میں لبنا سے لے کر نیویارک تک ایک درخت سدرہ کے نام پر پایا جاتا تھا۔ حوادث زمانہ کی وجہ سے 1937ء سے اس کی نسل تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی نے اپنی کتاب نباتات قرآن میں اس درخت کی اونچائی ایک سو پچاس فٹ اور گولائی چالیس فٹ لکھی ہے اور کتاب میں اس کے پھل کی تصویر دی ہے جسے حدیث کے الفاظ میں ھجر کے مٹکوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس درخت کے جلال اور جمال کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اپنے دور میں یہ درخت پوری دنیا میں سب سے بڑا اور حسین ترین درخت سمجھا جاتا تھا۔ بائبل میں اس کا تذکرہ ( REZE) کے نام سے کیا جاتا ہے۔ (تفصیل جاننے کے لیے ڈاکٹر اقتدار فاروقی کی نبات القرآن ملاحظہ فرمائیں۔) نبی (ﷺ) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ دیکھا ہے : جبرائیل امین (علیہ السلام) تمام ملائکہ کے سردار ہیں اور ہر نبی کے پاس ” اللہ“ کا پیغام لاتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سات سو پر عطا فرمائے ہیں۔ نبی (ﷺ) نے اپنی حیات مبارکہ میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کو اس کی اصل حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے پہلی مرتبہ پہلی وحی کے وقت غار حرا کے پاس اور دوسری مرتبہ ” سدرۃ المنتہیٰ“ کے مقام پر دیکھا جس کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی﴾ (النجم : 13تا15) ” اور ایک مرتبہ پھر اس نے اس کو اترتے دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔“ (حَدَّثَنَا الشَّیْبَانِیُّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَیْشٍ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی﴾ قَالَ: أَخْبَرَنِی ابْنُ مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) رَأَی جِبْرِیلَ لَہُ سِتُّمِائَۃِ جَنَاحٍ) (رواہ مسلم : باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ) حضرت شیبانی (رض) کہتے ہیں میں نے زر بن حبیش (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی﴾ انہوں نے مجھے بتلایا کہ مجھے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے نبی کریم (ﷺ) کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان کے سات سو پر تھے۔ مسائل: 1۔ نبی معظم (ﷺ) نے جبریل امین کو اس کی اصلی حالت میں دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ 2۔ سدرہ بیری کے درخت کی مانند کوئی درخت ہے۔