وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ
اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے 11) ربط کلام : جبریل امین کی شخصیت اور وحی کا بیان جاری ہے۔ جبریل امین افق اعلیٰ پر آپ (ﷺ) کے سامنے آکھڑئے ہوئے پھر آپ (ﷺ) کے قریب ہوئے یہاں تک کہ دو کمانوں یا اس سے بھی زیادہ قریب آ گئے پھر اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی اس تک پہنچائی۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی آنکھوں سے جو دیکھا اس کی دل نے پوری طرح تصدیق کی۔ اہل تفسیر نے ﴿فَاَوْحٰی الیٰ عَبْدِہٖ مَا اَوْحی﴾ کا یہ بھی ترجمہ کیا ہے کہ اللہ نے جبریل امین کے ذریعے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو اسے وحی کرنا تھی۔ نبی (ﷺ) نے اس مقام پر جو کچھ دیکھا آپ کے دل نے اس کی تصدیق فرمائی۔ انسانی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ جب وہ ما فوق الفطرت یا خرق عادت واقعہ دیکھتا ہے تو اس کی نظر اور دل میں مطابقت نہیں رہتی۔ آنکھ منظر دیکھ رہی ہوتی ہے لیکن دل اس منظر پر پوری طرح یقین نہیں کرتا کیونکہ ایسا واقعہ یا منظر اس سے پہلے اس نے دیکھا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے احاطہ خیال میں وہ چیز پوری طرح سما نہیں پاتی۔ جس بنا پر آنکھ اور دل میں یگانگت باقی نہیں رہتی۔ بعض دفعہ بے انتہا جمال یا ہیبت ناک جلال دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ یہاں اسی حالت کی نفی کی گئی ہے کہ نبی معظم (ﷺ) نے جبریل امین کو اپنے پاس دو کمانوں سے بھی قریب دیکھا اور آپ کے دل نے اس کی پوری طرح تصدیق کی کہ واقعی ملائکہ کے سردار جبریل امین ہیں۔ اس حالت میں نبی (ﷺ) پر وحی کی گئی جو اللہ نے وحی کرنا تھی۔ جس وحی کا امت کے ساتھ تعلق تھا نبی (ﷺ) نے اسے امت تک پہنچایا۔ اس موقع پر آپ پر جو وحی کی گئی اس میں سب سے نمایاں تین ارشادات تھے۔ 1۔ پچاس نمازیں فرض ہونا جنہیں بعد میں پانچ کردیا گیا۔ (رواہ البخاری : باب المعراج) 2۔ جو شرک سے بچا رہا اللہ تعالیٰ اس کے باقی گناہ معاف کر دے گا۔ (النساء :48) 3۔ سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔