فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ
پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا (١) لہذا وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں (٢)
فہم القرآن: (آیت59سے60) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو جو لوگ رزاق نہیں مانتے اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ دنیا اور آخرت میں اس طرح ہی نقصان پائیں گے جس طرح ان سے پہلے مجرم نقصان پاچکے ہیں۔ اہل مکہ کے جرائم : یہاں ظلم سے مراد ہر قسم کے گناہ ہیں۔ جن میں سرفہرست شرک ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف کفار کی عادت اور ان کا انجام بتلایا گیا ہے اہل مکہ نبی (ﷺ) پر وہی الزام لگا رہے تھے جو ان سے پہلے ظالم لوگ انبیاء پر لگایا کرتے تھے۔ نبی (ﷺ) پر الزام لگانے والوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ باز آجاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی پہلے ظالموں جیسا ہوگا۔ دنیا کے برے انجام کے ساتھ جس دن کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے اس دن تمہارا انجام نہایت بدترین ہوگا۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوْا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذ ہ لامۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا : میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح ایک جو تا دوسرے جوتے کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) افْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّار قیلَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ ہُمْ قَالَ الْجَمَاعَۃُ) (رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم) ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے تھے ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے تھے ان میں سے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں آپ نے فرمایا وہ جماعت (جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے) ہے۔“ تفسیر بالقرآن: ظالم لوگ : 1۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام :144) 2۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام :21) 3۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف :57) 4۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت :68) 5۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف :7) 6۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ:140) 7۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ:144)