سورة الذاريات - آیت 46

وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہوچکا تھا) وہ بھی بڑے نافرمان تھے۔ (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : قوم ثمود کے بعد قوم نوح کا ذکر۔ تاریخی اعتبار سے قوم نوح قوم عاد، ثمود اور آل فرعون سے پہلے گزری ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ ان اقوام سے پہلے قوم نوح کا واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم میں اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم نافرمان ہوچکی تھی قوم نوح کا سب سے بڑا گناہ شرک تھا یہ لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے ان کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ اس طرح ” اللہ“ کی عبادت یکسوئی کے ساتھ ہو پائے گی، چنانچہ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کے حضور سجدے، رکوع اور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر، طبری تفسیر سورۃ نوح، آیت : 23،24) سورۃ العنکبوت آیت 14میں بیان ہوا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ قرآن مجید نے یہ وضاحت بھی فرمائی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری شب و روز کی کوشش کے باوجود قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ (نوح :24) قوم نہ صرف جرائم میں آگے برھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ یہ تو گمراہ ہوگیا ہے اور پھر بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی۔ ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر :10) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) انھیں فرماتے کہ آج تم مجھے استہزاء کانشانہ بنا رہے ہو کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ (ھود آیت 37تا39) حضرت نوح (علیہ السلام) کا خطاب : اے میری قوم مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں۔ تم ہدایت کو پسند نہیں کرتے تو میں تم پر ہدایت کس طرح مسلط کرسکتا ہوں۔ میں تم سے تبلیغ کا اجر نہیں مانگتا نہ میں ایمان والوں کو اپنے آپ سے دھتکارنے والا ہوں۔ ہوش کرو اگر میں انھیں دھتکاردوں تو اللہ کے ہاں میری کون مدد کرے گا ؟ میں غیب دان ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ نہ میں اپنے آپ کو فرشتہ کہتا ہوں نہ میں کہتا ہوں جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو اللہ انھیں بھلائی سے نہیں نوازے گا۔ اگر ایسی باتیں کہوں تو میں ظالموں میں شمار ہوں گا۔ (ھود :123) قوم کا جواب : تم ہماری طرح کے انسان ہو لیکن ہم پر برتری چاہتے ہو۔ ہم نے یہ باتیں باپ دادا سے کبھی نہیں سنیں۔ نوح دیوانہ ہوگیا ہے۔ بس انتظار کرو ختم ہوجائے گا۔ (المؤمنوں : 24،25) ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تجھے ماننے والے گھٹیا لوگ ہیں۔ (الشعراء :112) ہم اپنے معبودوں اور ودّ، سواع، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔“ (نوح :24) ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ (الشعراء :116) قوم کا عذاب الٰہی کو چیلنج کرنا : ” اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا ہے۔ اب اس کی انتہا ہوگئی ہے بس ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر واقعی تو سچے لوگوں میں ہے۔“ ( ھود : ٣٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب : ” اگر ” اللہ“ نے چاہا تو تم پر عذاب ضرور آئے گا اور تم اسے ہرگز نہیں ٹال سکو گے۔“ (ھود :33) نوح (علیہ السلام) کی فریاد اور بد دعا : ” میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن اور رات خفیہ اور اعلانیہ، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھایا میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی۔ اپنے چہرے چھپا لیے اور تکبر کرنے کی انتہا کردی۔ میرے رب انھوں نے میری ہر بات کو ٹھکرایا اور نافرمانی کی۔ ان کی اولاد اور مال نے انہیں تیری نافرمانی میں بہت زیادہ بڑھایا دیا ہے انھوں نے زبردست قسم کی سازشیں کیں۔“ (نوح : 5تا9) ” حضرت نوح نے اپنے رب سے فریاد کی اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بے بس ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر :10) ” اے میرے رب اب زمین پر کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اب ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ نافرمان اور ناشکرگزار ہوگا۔“ (نوح : 25، 10،27) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : 40تا42) عذاب کی ہو لناکیاں : (القمر : 11،12) ” ہم نے موسلا دھار بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ اور ہم نے زمین سے ابلتے چشمے جا ری کیے۔“ (المومنون :27) ” جب ہمارا حکم صادر ہوا تو تنور جوش مارنے لگا۔“ قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت 11، 12اور سورۃ المؤمنون، آیت 27میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے 15فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ تفسیر بالقرآن: حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام : 1۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الفرقان :37) 2۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود :43) 3۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح :26) 4۔ حضرت نوح کا بیٹا بھی غرق ہوا۔ (ہود :43)