سورة الذاريات - آیت 43

وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ثمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائدہ اٹھالو (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت43سے45) ربط کلام : قوم عاد کے بعد قوم ثمود کا دور اور ان کا انجام۔ قرآن مجید نے قوم ثمود کو اصحاب الحجر بھی کہا ہے۔ (الحجر :80) اس کا علاقہ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قوم اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور کالونیاں تعمیر کرلی تھیں تاکہ زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ قوم بھی کفرو شرک کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ بڑے بڑے جرائم میں ملوث تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا مگر یہ لوگ کفر و شرک اور برے اعمال سے باز نہ آئے۔ بلکہ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم ہمارے لیے نحوست کا سبب ہومزید کہتے کہ صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر ہوچکا ہے۔ (الشعراء : 142تا153) انھوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے گابھن اونٹنی نمودار نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس طرح معجزہ طلب نہ کرو۔ اگر تمہارا منہ مانگا معجزہ دے دیا گیا اور پھر تم نے اس کا انکار کیا تو تمہارا بچنا مشکل ہوگا۔ لیکن قوم اپنے مطالبہ پر مصر رہی۔ چنانچہ انہیں اونٹنی کا معجزہ دیا گیا مگر انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ جس کے سبب عذاب نا زل ہوا۔ جس کا یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں فہم القرآن، جلد2: سورۃ الاعراف، آیت 73تا 84کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز وہاں سے کیا جہاں سے حضرت نوح اور حضرت ھود ( علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اے میری قوم! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ دین کی مقرر کردہ عبادات کی ادائیگی کے ساتھ آدمی اپنے فکر و عمل کو پوری طرح اللہ کے حکم کے تابع کردے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی عبادت کا حکم دیا جا رہا ہے، جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس میں آباد فرمایا۔ لیکن تم ” اللہ“ کا شکر اور اس کی عبادت کرنے کی بجائے بغاوت پر اتر آئے ہو۔ تمہیں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ کے لیے سچی توبہ کرنی چاہیے۔ یقین کرو کہ میرا رب ہر انسان کے قریب ہے اور توبہ کرنے والے کی جلد توبہ قبول کرلیتا ہے۔ (البقرۃ:186) قوم کا جواب : 1۔ اے صالح ہم تو تجھے بہت اچھا سمجھتے تھے مگر تو ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ (ھود :62) 2۔ کیا تو ہمیں ان کاموں سے روکتا ہے جو ہمارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں۔ (ھود :62) 3۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل :74) 4۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تمھاری پیروی کریں۔ (القمر :24) 5۔ اگر تم ہمارے دین پر نہ آئے تو ہم تمہیں اپنے علاقے سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم :13) 6۔ صالح تو بہت بڑا جھوٹا اور بڑائی بکھیرنے والا ہے۔ (القمر :25) 7۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء :153) تفسیر بالقرآن: قوم ثمود کا انجام : 1۔ قوم ثمود کے لیے دوری ہے۔ (ھود :68) 2۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ:5) 3۔ مدین والوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ قوم ثمود کی طرح مدین والوں کے لیے دوری ہے۔ (ھود :95) 4۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء :157) 5۔ شیطان نے قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت :38) 6۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف :78) 7۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود :67)