سورة الذاريات - آیت 41

وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اسی طرح عادیوں میں (١) بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر و برکت سے (٢) خالی آندھی بھیجی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت41سے42) ربط کلام : فرعون کے انجام کے بعد قوم عاد کا حشر۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جس کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالاپہاڑ تھے۔ اس کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل لوگ تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : 1۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف :69) 2۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر 6 تا8) 3۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء :133) 4۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء 129تا133) 5۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون :33) 6۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون :37) 7۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰم السجدۃ :15) 8۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے جھکتے، نذرو نیاز اور اپنی حاجات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف :70) حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کرو اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ اے میری قوم! میں اس کام کے بدلے تم سے کسی قسم کی ستائش اور صلہ نہیں چاہتا۔ میرا صلہ اس ذات کبریا کے پاس ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ میری مخالفت کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچو! کہ اس دعوت میں میرا کیا مفاد اور تمہارا نقصان کیا ہے؟ میں تم کو لوگوں پر ظلم کرنے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے سے روکتا ہوں۔ جن کو تم بلاتے اور پکارتے ہو۔ کیونکہ یہ اللہ کے سوا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ جو تم ان کے بارے میں دعوے کرتے ہو اس کی کوئی بنیاد نہیں یہ سراسر جھوٹ اور بناوٹی باتیں ہیں۔ کیا تم سوچنے کے لیے تیار ہو؟ ” قوم عاد ایک شدید آندھی سے تباہ کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیے رکھا آپ وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح بکھرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔“ (الحاقہ : 6،7س) قوم کا جواب : 1۔ قوم نے حضرت ھود کو بے وقوف قرار دیا۔ (الاعراف :66) 2۔ قوم نے کہا کہ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون :33) 3۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ بناتا ہے۔ (المؤمنون :38) 4۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء :137) 5۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء :136) 6۔ ہمارے معبودوں کی تجھے بد دعا لگ گئی ہے۔ (ھود :54) 7۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : 138تا139) 8۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آو۔ (الاحقاف :22) تفسیر بالقرآن: قوم عاد کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب سے حضرت ھود اور ایمانداروں کو محفوظ رکھا۔ (ھود :58) 2۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ :7) 3۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف :24) 4۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : 41۔42) 5۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقہ :7) 6۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف :72) 7۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ :16)