سورة آل عمران - آیت 178

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں (١) ان ہی کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 178 سے 179) ربط کلام : دنیا کی بجائے کافر کو آخرت میں مکمل سزا دینا، کفریہ کاموں میں ان کا جلدی کرنا، احد میں معمولی کامیابی حاصل کرلینا یہ مہلت دینے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دل بھر کر گناہ کرلیں تاکہ قیامت کو انہیں ٹھیک ٹھیک سزادی جائے۔ اُحد میں کفار مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار تھے اور منافق ہمدرد اور خیر خواہ بن کر ان کے حق میں خفیہ کردار ادا کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے کبھی کافروں کے کردار پر تنقید کی جاتی ہے اور کبھی منافقوں کے رویے کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ بسا اوقات منافقوں کے کردار اور اعتقاد کی بنا پر ان کے لیے بھی کفر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس فرمان میں منافق اور کافردونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ تاہم کفار کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر احد میں تھوڑی سی کامیابی اور دنیا میں تمہیں کچھ مہلت میسر ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو مہلت دیے جا رہے ہیں اس میں تمہارے لیے کوئی خیر ہو سکتی ہے۔ اگر اللہ کی گرفت سے بچے ہوئے ہو تو اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان حرکتوں سے بے خبر ہے یا اس کی دسترس سے تم باہر ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری رسی ڈھیلی اور دراز کر رکھی ہے تاکہ گناہ کرنے میں تمہیں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ جب اللہ تعالیٰ گرفت کی رسی کھینچے گا تو وہ تمہاری گردن میں اس طرح پھندا بن جائے گی جس سے چھٹکارا پانا ممکن نہ ہوگا اور کافر ہمیشہ کے لیے ذلیل کردینے والے عذاب میں سزائیں بھگتتے رہیں گے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہمیشہ کسمپرسی کی حالت میں اور منافقوں کو ان کے ساتھ خلط ملط رہنے دے بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جس سے منافق الگ ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ احد میں ہوا۔ یہاں مومنوں کے وجود اور کردار کو طیب اور منافقوں کے کردار کو خبیث کہا گیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مومن کتنے عمدہ‘ پاک اور منافق کس قدر گندے ہیں۔ اللہ کے ہاں یہ بھی درست نہیں کہ وہ ہر کسی کو اپنی تقدیر یعنی امور غائب سے مطلع کرتا رہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بھید پانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی اطلاع کے لیے پیغمبروں کو منتخب کر رکھا ہے۔ ان میں بھی جس پیغمبر کو جتنا چاہا امور غیب سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اگر کافر اور منافق بھی ایمان لائیں تو ایمانداروں کی طرح یہ بھی اجر عظیم پائیں گے۔ بعض لوگ پیروں‘ فقیروں اور علماء کے حوالے سے ایسے واقعات لکھتے اور بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ بھی غیب کے واقعات جانتے تھے۔ یہاں دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے ان کے بھی درجنوں واقعات ہیں کہ وہ غیب کا علم ہرگز نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کرام خود تو غیب کا علم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں عطائی علم غیب ضرور تھا۔ عطائی کا معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا اور عطا کردہ علم۔ علم غیب کی یہ تعریف بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انبیاء یا کسی کو کوئی بات بتلا دے تو وہ غیب کس طرح رہا۔ یہ بات علم غیب کی تعریف میں نہیں آتی اس لیے رسول کریم (ﷺ) کی زبان اطہر سے کئی بار یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ از خود یہ اعلان فرمائیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ سورۃ الانعام کی تفسیر میں کی جائے گی۔ مسائل : 1۔ کفارکے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل بہتر نہیں ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کے بغیر کسی کو غیب کی خبریں نہیں دیتا۔ 3۔ ایمان اور تقو ٰی اختیار کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ تفسیربالقرآن : کفار کے لیے مہلت مفید نہیں : 1۔ ڈھیل کفار کے لیے گناہوں کا باعث بنتی ہے۔ (آل عمران :178) 2۔ کفار اور بخیل کے لیے مہلت نقصان دہ ہے۔ (آل عمران :180) 3۔ کفار کے لیے دنیا کی فراوانی نقصان دہ ہے۔ (الانعام :44) نبی غیب نہیں جانتے: 1۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام: 59) 2۔ آپ فرما دیں کہ غیب اللہ ہی کے لئے ہے۔ (یونس : 20) (النمل: 65) (ھود: 31)