سورة ق - آیت 38

وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کردیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت38سے40) ربط کلام : اس سورت کی ابتدائی آیات میں انسان کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے کا ثبوت دیا گیا ہے اب فرمایا کہ کیا لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو کس طرح بلندیوں پر کھڑا کر رکھا ہے اور زمین کو کس طرح پھیلایا اور بچھایا ہے۔ سورت کا اختتام بھی اسی بات سے کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ان کے بنانے اور پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کو کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ اور اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی اگر یہ لوگ ٹھوس اور واضح دلائل کو نہیں مانتے اور قیامت کا مذاق اڑاتے اور اللہ تعالیٰ کی گستاخی کرتے ہیں تو اے رسول (ﷺ) ! آپ کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ صبر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رب کی تسبیح پڑھا کریں۔ سورج طلوح اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے کچھ حصے میں بھی اپنے رب کو اس کی حمد کے ساتھ یاد کریں اور ہر نماز کے بعد بھی اس کا ذکر کیا کریں۔ اللہ کو اس کی حمد کے ساتھ یاد کرنے کا معنی یہ ہے کہ جس انداز اور الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اسی طرح اس کا ذکر کیا جائے۔ یہاں منکرین قیامت کے نظریہ کی تردید کرنے کے بعد یہودیوں کے باطل عقیدہ کی بھی تردید کی گئی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے بنانے اور پیدا کرنے کے بعد تھکاوٹ محسوس کی اور ہفتہ کے دن مکمل طور پر آرام فرمایا جس وجہ سے ہفتہ کا دن مقدس ہے اور ہم اسی وجہ سے اس دن چھٹی کرتے ہیں۔ یہودیوں کے نظریہ کی تردید کرنے کے ساتھ منکرین قیامت کو بتلایا ہے کہ جب زمین و آسمانوں اور ہر چیز بنانے میں اللہ تعالیٰ کو کوئی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی۔ کیا قیامت کے دن تمہیں پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہوگا؟ ” وہی تخلیق کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان ہے۔ اسی کی شان ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین میں سب سے برتر ہے، غالب اور حکمت والا ہے۔“ (الروم :27) ” حضرت حسن بصری (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) پر یہ آیت نازل فرمائی “ ( المجالسۃ وجواھر العلم، ج : 6، ص :223) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) (رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ ﴾۔۔ الخ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرتا ہے اور جب بھی اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ () یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) (رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (ﷺ) ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ 2۔ زمین و آسمان کی پیدائش اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی۔ 3۔ منکرین قیامت کی حجت بازیوں پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ 4۔ ہر نماز کے بعدبھی ذکر واذکار کرنے چاہئیں۔ تفسیر بالقرآن: صبر اور اس کے فوائد : 1۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ:152) 2۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ:152) 3۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر :10) 4۔ بے شک جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا انہیں کوئی خوف اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ (الاحقاف :13) 5۔ صبر کیجیے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (ھود :115)