الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لئے بہت زیادہ اجر ہے (١)۔
فہم القرآن : (آیت 172 سے 174) ربط کلام : احد کی ہزیمت کے بعد کفار کی دھمکی کا مسلمانوں کی طرف سے ردّ عمل جس میں ان کے ایمان کی تعریف کی گئی ہے۔ منافقوں کے کردار اور ان کی ہرزہ سرائی کے ذکر کے بعد اللہ کے راستے میں کٹ مرنے والوں کی حیات جاوداں اور دنیا و آخرت میں ان کے مقام و انعام کا ذکر کرتے ہوئے ان کے احترام کا لحاظ رکھنے کی تلقین کرنے کے بعد غازیوں اور مجاہدوں کا ایک دفعہ پھر تذکرہ ضروری سمجھا گیا جنہیں احد کی شکست کے فوراً بعد کفار کے لشکر کے کمانڈر ابو سفیان نے یہ چیلنج دیا تھا کہ میں تم پر دوبارہ حملہ آور ہو رہا ہوں۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ احد کے میدان میں مسلمانوں کو بھاری نقصان پہنچانے کے باوجود کفار کو مزید ٹھہرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ کچھ دور جا کر انہوں نے سوچ و بچار کے بعد اس طرح بے مراد لوٹنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ بالآخر یہ طے کیا کہ ہمیں مدینے پر حملہ کر کے مسلمانوں کی رہی سہی طاقت کو تہس نہس کردینا چاہیے۔ اس کے لیے اعصابی حربہ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے نعیم بن مسعود اشجعی کو انعام کا لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ جا کر مسلمانوں کو اس طرح مرعوب کرے کہ وہ ہمارے مدِّ مقابل آنے کی تاب نہ لا کر ہمارے سامنے ہتھیار پھینک دیں۔ اس نے ایسا ہی کیا لیکن مسلمانوں کا ردّ عمل اس قدر شدید اور ایمان افروز تھا کہ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے جو بہترین کارساز ہے۔ البتہ ابو سفیان کے اعصابی حملے کا جواب دیتے ہوئے رسول کریم (ﷺ) نے معبد بن ابی معبد الخزاعی کو بھیجا یہ شخص کافر ہونے کے باوجود مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا تھا جس کی وجہ سے یہ احد کی شکست کے بعد مدینہ آیا اور اس نے آپ سے عرض کی کہ ان حالات میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ تب آپ (ﷺ) نے اسے ذمہ داری سونپی کہ وہ ابوسفیان کے پاس جا کر اس طرح کی گفتگو کرے کہ کفار کے چھکے چھوٹ جائیں۔ چنانچہ اس نے یہ فریضہ انجام دیتے ہوئے ابو سفیان کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے حالات کا ایسا نقشہ پیش کیا کہ اس کے اعصاب ٹوٹ گئے اور اس نے مکہ کی راہ اختیار کرنے میں اپنے لیے عافیت سمجھی۔ اس نازک موقعہ پر صحابہ (رض) کے غیر معمولی کردار کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں کو گہرے زخم آئے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا اور کفار سے ڈرنے کے بجائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ وہ کفّارکے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا جس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو مرعوب اور پسپا کردیا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے وہاں دس دن قیام فرمایا یہ مقام تجارتی قافلوں کی گزر گاہ کے قریب تھا۔ بعض صحابہ نے خوب تجارت کی اس طرح مسلمان کاروباری فوائد کے ساتھ بڑی شان و شوکت کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔ (الرحیق المختوم) اس آیت میں صحابہ کی تجارت‘ ایمان سے لبریز ولولہ اور کفار کے مقابلہ میں کامیابی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مسائل : 1۔ تقو ٰی اختیار کرنے، اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ 2۔ مسلمان کفار سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو اپنا کار ساز سمجھیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنے اور اس کی رضا چاہنے والوں پر اللہ کا فضل عظیم ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ رسول کریم (ﷺ) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل :79) 2۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ:10) 3۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 4۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 5۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ:129)