يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (١) ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
فہم القرآن: (آیت6سے8) ربط کلام : نبی محترم (ﷺ) کے احترام کا یہ بھی تقاضا ہے کہ جب مسلمانوں میں کوئی بدگمانی یا افواہ پھیل جائے تو اسے نبی (ﷺ) کے سامنے پیش کریں تاکہ اس کا بروقت تدارک ہوسکے۔ نبی (ﷺ) کے بعد مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر چیز کی تصدیق کرلیا کریں۔ اس آیت کے شان نزول میں بعض مفسرین نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کا واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ ٹھیک نہیں، بہرحال بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کوئی فاسق یا غیر ذمہ دار شخص کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی پیدا کرے یا کوئی ملک و ملت کے خلاف افواہ اڑائے تو ہر حال میں اس کی تحقیق کرلینی چاہیے تاکہ مسلمان اس کے نقصان اور پریشانی سے محفوظ رہیں۔ اس اصول کے پیش نظر ایک دفعہ پھر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو تاکہ تمہیں کسی قسم کا نقصان اور پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے اگر بہت سی باتوں میں تمہاری باتیں قبول کرلے تو تم ضرور مشکل میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کی زینت قراردیا ہے اور تمہیں کفر، نافرمانی اور گناہ سے بیزار کردیا ہے جو لوگ کفر اور فسق وفجور کے مقابلے میں ایمان کو محبوب سمجھتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی ہدایت پرہیں۔ جو شخص اپنے رب کی ہدایت پر ہے اس پر اللہ کا فضل اور احسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والاہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ہے۔ یہاں ایک دفعہ پھر صحابہ کرام (رض) کے ایمان کی تعریف کی ہے اور ان کے ایمان سے منور دلوں کی تصدیق فرمائی ہے۔ صحابہ کرام (رض) نہ صرف ایمان کو پسند کرنے والے تھے بلکہ ایمان کے مقابلے میں کفر، تابعداری کے مقابلے میں نافرمانی اور نیکی کے مقابلے میں گناہ کو برا سمجھتے تھے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جو ان کے بعد اس درجہ میں کسی کو نصیب نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ) (رواہ مسلم : باب، تحریم سب الصحابۃ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا میرے اصحاب (رض) کو برا مت کہو۔ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو صحابہ کے مد (نصف کلو گرام تقریبا) کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔“ (وَعَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ (رض) قَالَ رَفَعَ یَعْنِی النَّبِیُّ (ﷺ) رَاْسَہٗ اِلَی السَّمَاءِ وَکَانَ کَثِیْرًامِمَّا یَرْفَعُ رَاْسَہٗ اِلَی السَّمَاءِ فَقَال النُّجُوْمُ اَمَنَۃٌللِّسَّمَاءِ فَاِذَاذَھَبَتِ النُّجُوْمُ اَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ وَاََنَا اَمَنَۃٌ لِّاَصْحَابِیْ فَاِذَاذَھَبْتُ اَنَا اَتٰی اَصْحَابِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ وَاَصْحَابِیْ اَمَنَۃٌ لاُِمَّتِیْ فَاِذَا ذَھَبَ اَ صْحَابِیْ اَتٰی اُمَّتِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ) (رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّ بَقَاء النَّبِیِّ (ﷺ) أَمَانٌ لأَصْحَابِہِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِہِ أَمَانٌ لِلأُمَّۃِ) ” حضرت ابوبردہ (رح) پنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ (ﷺ) اکثر اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے۔ فرمایا : ستارے آسمان کے لیے امن کی ضمانت ہیں۔ جب آسمان کے ستارے ٹوٹ جائیں گے تو آسمان کے پھٹ جانے کا وقت آجائے گا اور میں اپنے اصحاب کے لیے باعث امن ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب ان آزمائشوں سے دوچار ہوں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امن کا سبب ہیں۔ جب میرے صحابہ اٹھا لیے جائیں گئے تو میری امت بتائے ہوئے فتنوں سے دو چار ہوگی۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ) (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (ﷺ) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے، جن کی گواہی ان کی قسم سے اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ صحافت اور میڈیا کے لیے بنیادی اصول : آج غیر مسلموں سے متاثر ہو کر صحافت اور میڈیا سے منسلک حضرات برملا کہتے ہیں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونا چاہیے۔ اسے آزادئ اظہار کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ کسی بات کی تحقیق کیے بغیر اسے پھیلانا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) (رواہ مسلم : کتاب المقدمۃ) ” آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔“ مسائل: 1۔ ایمانداروں کے لیے حکم ہے کہ اگر کوئی ان کے درمیان بدگمانی یا افواہ پیدا پھیلائے تو اس کی تحقیق کرلیا کریں۔ 2۔ تحقیق کے بغیر افواہ پر یقین کرنے سے پریشانی لاحق ہوسکتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ (رض) کے دلوں کو ایمان سے منور فرمایا اور ایمان کو ان کے لیے عزیز ترین نعمت بنا دیاتھا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے دلوں کو کفر اور فسق وفجور سے متنفر کر دیاتھا۔ 5۔ سب کے سب صحابہ (رض) ہدایت یافتہ تھے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) پر اپنا فضل اور عظیم احسان فرمایا۔ تفسیر بالقرآن: صحابہ کرام (رض) کا ایمان اور مرتبہ ومقام : 1۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات :3) 2۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ :137) 3۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلہ :22) 4۔ صحابہ کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ :13) 5۔ صحابہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ :22) 6۔ صحابہ بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینہ :8) 7۔ صحابہ کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینہ :8)