يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (١)
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ کے رسول سے آگے بڑھنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اپنی بات کو نبی (ﷺ) کی بات سے بلند رکھا جائے۔ اس سے منع کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ حکم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ آگے بڑھنے کا مفہوم پیچھے ذکر ہوچکا ہے اب صرف نبی (ﷺ) کا نام لے کر مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ آپ (ﷺ) کی آواز سے اپنی آواز کو اونچی نہ کرو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا نام نہیں لیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دور یا نزدیک، بلند اور آہستہ آواز میں پکارا جاسکتا ہے اور ہر حال میں اسی کو پکارنا چاہیے۔ نبی (ﷺ) کی حیات مبارکہ میں آپ کو نہ دور سے پکارا جاسکتا ہے اور نہ ہی آپ (ﷺ) سے بات کرنے والے کی آواز اونچی ہونی چاہیے۔ آپ (ﷺ) کا نام لے کر دور سے آواز دینا اب بھی جائز نہیں کیونکہ اسی صورت کی چوتھی آیت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے۔ جب تک آپ (ﷺ) حیات تھے اس وقت تک آپ کے سامنے آواز اونچی کرنا جائز نہیں تھا۔ اب اس کا یہ مفہوم ہوگا کہ کوئی شخص اپنی یا کسی کی ذات اور بات کو نبی معظم (ﷺ) کی ذات اور بات سے اونچا نہ سمجھے۔ اونچا سمجھنے سے مراد آپ کے فرمان سے اپنی یا کسی بزرگ کی بات کو مقدم سمجھنا ہے۔ جس نے یہ کیا اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات اور بات کو وہ مقام بخشا ہے جس تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے حکم ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی (ﷺ) کی آواز سے اونچا نہ کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو دور یا نزدیک سے اونچی آواز سے بلاتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے سارے کے سارے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہیں ہوگی۔ گویا کہ اسے توبہ کرنے کا موقعہ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ غور فرمائیں کہ وہ مسلمان کتنا بدقسمت ہے جس کے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور اسے خبر تک نہ ہو سکے اور نہ وہ توبہ کرسکے۔ (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ ثَابِتُ ابْنُ قَیْسِ ابْنِ شَمَّاسٍ خَطِیْبَ الْاَنْصَارِ فَلَمَّا نَزَلَتْ İیَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَاتَرْفَعُوْااَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔۔ اِلٰی اٰخِرِالْاٰیَۃĬ) جَلَسَ ثَابِتٌ فِیْ بَیْتِہٖ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فَسَأَلَ النَّبِیُّ (ﷺ) سَعْدَ ابْنَ مُعَاذٍ مَا شَاْنُ ثَابِتٍ اَیَشْتَکِیْ فَاَتَاہُ سَعْدٌ فَذَکَرَلَہٗ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ ثَابِتٌ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ اَنِّیْ مِنْ اَرْفَعِکُمْ صَوْتًا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ فَاَنَا مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَذَکَرَ ذَالِکَ سَعْدٌ للنَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بَلْ ھُوَمِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ) (رواہ مسلم : باب مَخَافَۃِ الْمُؤْمِنِ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُہُ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ثابت بن شماس (رض) انصار میں اونچی آواز والے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔۔“ (الحجرات :2) تو ثابت (رض) اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہونا چھوڑ دیا۔ نبی (ﷺ) نے ثابت کے متعلق سعد بن معاذ سے فرمایا کہ کیا وہ بیمار ہیں ؟ حضرت سعد (ﷺ)، حضرت ثابت (رض) کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں رسول اللہ (ﷺ) کے پوچھنے کے بارے میں آگاہ کیا۔ حضرت ثابت (رض) نے وضاحت کی کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس میں میری آواز سب لوگوں کی آواز سے اونچی ہوتی ہے اس بنا پر میں جہنمی ہوں۔ سعد (رض) نے ان کی بات کو نبی اکرم (ﷺ) کے سامنے ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا : نہیں وہ جنتی ہے۔“ مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) کی حیات میں آپ کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنا منع تھا۔ 2۔ جس طرح ایک دوسرے کو دور سے پکارا جاتا ہے۔ نبی (ﷺ) کی حیات مبارکہ میں اور اب بھی آپ کو دور سے پکارنا منع ہے۔ 3۔ جو لوگ اپنی یا کسی کی ذات اور بات کو نبی (ﷺ) کی ذات اور بات سے اونچا سمجھتے ہیں ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ 4۔ نبی (ﷺ) کی ذات اور بات سے اپنی یاکسی کی ذات اور بات کو اونچا سمجھنا اپنے اعمال کو ضائع کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نبی معظم (ﷺ) کی ذات اور بات کا مقام اور احترام : 1۔ نبی (ﷺ) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات :4) 2۔ نبی (ﷺ) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات :2) 3۔ نبی (ﷺ) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات :1) 4۔ نبی (ﷺ) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد :33) 5۔ نبی (ﷺ) نے جو دیا اسے پکڑلیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ ( الحشر :7)