مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے (١) مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا (٢) پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا (٣) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے (٤)، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے (٥)
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے رسول اور دین کو غالب فرمایا بلکہ ایک طویل مدت تک مسلمانوں کو دنیا میں غلبہ عطا فرمایا۔ اس سے پہلی آیت کے آخر میں یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ اللہ کی گواہی کافی ہے جس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھی ہیں کفار پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ آپ ان کو رکوع، سجود کی حالت میں دیکھیں گے کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کرتے ہیں اور سجدوں کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ ان کی صفات کا تذکرہ تورات اور انجیل میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے پہلے زمین سے اپنی سوئی نکالی پھر مضبوط ہوئی پھر اپنی ٹہنی پر کھڑی ہوگی جو زمیندار کو بھلی لگتی ہے اور کفار کے دل اس سے جلتے ہیں۔ جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں معاف فرمائے گا اور اجر عظیم عطا کرے گا۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کی رسالت کی گواہی دینے کے ساتھ صحابہ کرام (رض) کے درج ذیل اوصاف بیان کیے ہیں۔ 1۔ صحابہ کرام (رض) کو نبی (ﷺ) کے ساتھی قراردیا گیا ہے۔ 2۔ صحابہ کرام کفار پر سخت تھے اور آپس میں نرم تھے۔ کفار پر سخت ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ مسلمان غیرمسلم کے ساتھ ترشی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا معنٰی یہ ہے کہ وہ اپنے دین میں پکے ہیں اور کفر کے بارے میں شدیدنفرت رکھنے کی وجہ سے حالت جنگ میں کفار کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں کرتے جس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ جنگ بدر میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے بیٹے کا ان کے ساتھ آمنا سامنا ہوا لیکن بیٹے نے اپنے باپ پر حملہ نہ کیا۔ جب بعد میں بیٹا مسلمان ہوا تو اس نے ابو بکر صدیق (رض) سے کہا کہ ابّا جان بدر کے میدان میں آپ میری تلوار کے نیچے کئی بار آئے لیکن میں نے آپ کے احترام میں آپ پر تلوار کا وار نہ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (ﷺ) نے فرمایا کہ بیٹا تو میری تلوار کے نیچے آتا تو میں تیرا سر قلم کردیتا۔ بدرکی فتح کے بعد جب قیدیوں کو رسیوں میں جکڑا جارہا تھا تو حضرت عمیر (رض) نے دیکھا کہ ان کے بھائی کو بھی رسی سے باندھا جارہا ہے۔ حضرت عمیر (رض) نے باندھنے والے صحابی کو کہا کہ اس کے ہاتھ اچھی طرح باندھنا کیونکہ اس کی ماں کے پاس بڑا مال ہے۔ حضرت عبیدہ (رض) نے بدر کے معرکہ میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا کیونکہ وہ باربار نبی کریم (ﷺ) پر حملہ آور ہو رہا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ نے انہیں اشارے کنائے سے روکنے کی کوشش کی کہ وہ نبی کریم (ﷺ) پر حملہ نہ کریں جب نہ رکے تو حضرت ابو عبیدہ نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کو قتل کردیا۔ حضرت عمر (رض) کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ انہوں نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ ہر کوئی اپنے اپنے رشتہ دار کو قتل کرے اور سب سے پہلے میں اپنے رشتہ دار قیدیوں کو قتل کروں گا۔ صحابہ کرام (رض) کی آپس میں محبت اور شفقت : (عَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) تَرَی الْمُوْمِنِیْنَ فِیْ تَرَاحُمِھِمْ وَتَوَادِّھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إذَا اشْتَکیٰ عُضْوًا تَدَاعٰی لَہٗ سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّھَرِ وَالْحُمّٰی) (رواہ البخاری : باب رحمۃ الناس والبہائم) ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں رسولِ کریم (ﷺ) نے فرمایا‘ تم مسلمانوں کو باہم‘ رحم‘ محبت اور شفقت کرنے کے حوالے سے ایک جسم کی مانند پاؤ گے۔ جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے سارا جسم تکلیف اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔“ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلْمُؤْمِنُوْنَ کَرَجُلٍ وَّاحِدٍ اِنِ اشْتَکیٰ عَیْنُہُ اشْتَکٰی کُلُّہٗ وَاِنِ اشْتَکٰی رَأْسُہُ اشْتَکٰی کُلُّہٗ) (رواہ مسلم : باب تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِہِمْ وَتَعَاضُدِہِمْ) ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : مومن ایک شخص کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں درد ہو تو اس کا سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو بھی اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا وَشَبَّکَ أَصَابِعَہُ) (صحیح بخاری، باب تشبیک الأصابع فی المسجد وغیرہ) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان فرماتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے دیوار کی طرح ہے یہ ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملا کر سمجھایا۔“ صحابہ کے رکوع و سجود : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کی نماز کا کئی مقامات پر تذکرہ کیا ہے۔ ” وہ لوگ اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔“ (الفرقان :64) صحابہ کرام کی نماز اور ان کے رکوع وسجود کا یہ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے چہروں پر ان کے سجدوں کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ سجدوں کے آثار کا یہ معنٰی نہیں کہ کسی کے ماتھے پر کالا نشان پڑا ہوا ہو۔ آثار کا یہ معنٰی ہے کہ ان کے چہروں سے روحانیت ٹپکتی ہے جس سے بالخصوص عبادت گزار آدمی پہچانا جاتا ہے کہ یہ اپنے رب کے حضور جھکنے والاہے۔ صحابہ کرام (رض) کی جماعت کا نظم اور مضبوطی : مسلمانوں کی جماعت اور اس کی مضبوطی کے لیے لازم ہے کہ ان کی رشتہ داریاں اور معاملات غیروں کی بجائے آپس میں ہونے چاہئیں اور ان کی محبت اور دوستی کفار کی بجائے مسلمانوں سے ہونی چاہیے۔ نبی (ﷺ) نے قرآن مجید کی روشنی میں صحابہ کرام کو انہی خطوط پر منظم فرمایا جس کا نقشہ قرآن مجید ان الفاظ میں پیش کرتا ہے آپ کے ساتھیوں کی مثال یوں ہے جس طرح بیج سے شگوفہ نکلتا ہے پھر وہ نرم و نازک کونپل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر کونپل سے ٹہنی بنتی ہے جو سیدھی کھڑی ہو کر اپنے تنے پر مضبوط ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس سے گل و گلزار نکلتے ہیں۔ جن کی مہک باغ کے مالی اور کھیت کے مالک کو خوش کرتی ہے اور دوسری طرف حاسد کے حسد میں اضافہ کرتی ہے۔ اسی کیفیت کی بنا پر جوں جوں اسلام پھیل رہاتھا اور صحابہ کرام کی جماعت آگے بڑھ رہی تھی اسی قدر ہی کفار حسد و بغض کا شکار ہورہے تھے۔ یہ ایسی جماعت تھی جو دنیا میں ہر اعتبار سے کامیاب ہوئی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اجرِعظیم دینے کا وعدہ فرمایا۔ یہ اپنے رب پر راضی ہوئے اور ان کا رب ہمیشہ کے لیے ان پر راضی ہوگیا۔ (المجادلہ :22) ” وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی فوج ہیں، خبردار رہو! اللہ کی فوج ہی کامیاب ہونے والی ہیں۔“ مسائل: 1۔ رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ آپس میں نہایت مہربان اور کفار کے بارے میں سخت تھے۔ 2۔ صحابہ کرام (رض) کے چہروں پر رکوع اور سجود کے آثار نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ 3۔ تورات اور انجیل میں صحابہ کرام (رض) کی تعریف پائی جاتی ہے۔ 4۔ صحابہ کرام (رض) کی جماعت باہمی محبت اور نظم وضبط کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے صالح اعمال مومنوں کے لیے بخشش اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: صحابہ کرام (رض) کی عظمت وفضیلت : 1۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات :3) 2۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ :137) 3۔ صحابہ (رض) اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلہ :22) 4۔ صحابہ کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ :13) 5۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ :22) 6۔ صحابہ (رض) بھی اللہ تعالیٰ پر راضی ہوگئے۔ (البینہ :8) 7۔ صحابہ (رض) کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینہ :8)