سورة الفتح - آیت 28

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب (١) کرے، اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہی دینے والا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی معظم (ﷺ) کو نبوت، مکہ کی فتح اور دیگر فتوحات اس لیے عطا فرمائیں تاکہ اللہ کا دین غالب آ جائے۔ قرآن مجید نے تین مقامات پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ” اللہ“ نے اپنا رسول ہدایت اور دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے حق غالب کرنے پر قادر ہے اور اس کی گواہی اپنے رسول اور دین کے بارے میں کافی ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ دین کے غلبے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ دین اسلام کا کوئی قانون اور مسئلہ ایسا نہیں جسے دلائل کی بنیاد پر جھوٹا یا ناقابل عمل ثابت کیا جاسکے۔ دین ہمیشہ دلائل اور حقائق کی بنیاد پر ہر دور کے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور رہے گا۔ البتہ مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی غلبے کے لیے شرط یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک ہی غالب رہیں گے جب تک یہ دین کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے۔ کے الفاظ مفہوم کے لحاظ سے آپس میں مترادف ہیں۔ جس ہدایت کے ساتھ ” اللہ“ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے اس کی تشریح دین ہے اور اس کی اساس ” اللہ“ کی توحید ہے۔ دین کا مقصد ہدایت اور راہنمائی کرنا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی کو صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ (الفاتحہ :5) ” بِالْھُدیٰ“ سے مراد وہ راہنمائی اور بصیرت ہے جس کے ساتھ آپ (ﷺ) نے لوگوں کو دین سمجھایا اور اس کا نفاذ فرمایا۔ جہاں تک نبی (ﷺ) اور دین حق کے غلبہ کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور دین کو جزیرۃ العرب جو موجدہ جغرافیہ کے مطابق سعودی عرب، یمن، کو یت، بحرین، مسقط، سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات کا پورے رقبہ پر مشتمل تھا، اس پر غالب فرمایا۔ اس سیاسی، اخلاقی، جہادی اور دینی غلبہ کے اثرات تھے کہ نبی (ﷺ) نے تبوک کی طرف پیش قدمی فرمائی تو رومی جو اس دور کی واحد سیاسی قوت تھے وہ آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے۔ (الصف :9) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دوسرے ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔“ (التوبہ :33) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کردے، خواہ مشرک لوگ برا سمجھتے رہیں۔“ (الفتح :28) ” وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔“ (المجادلہ :21) ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔“ ” یہ تو محض تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے ہے ورنہ مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو غالب، حکمت والا ہے۔“ (آل عمران :126) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : دین آسان ہے کوئی شخص اسلام پر غالب نہیں آسکتا بلکہ دین ہی غالب ہوگا۔ اجروثواب کا راستہ اور میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کو خوشخبریاں دو، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہو۔“ (رواہ البخاری : باب الدین یسر) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْا وَلَا یُعْلیٰ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر :1268) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ اس غلبے کے نتیجے میں مسلمان دنیا میں تقریباً ایک ہزار سال تک سیاسی، اخلاقی اور علمی طور پر غالب رہے۔ مسائل: 1۔ اللہ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ دین حق تمام ادیان باطلہ پر غالب آ جائے۔ 2۔ رسول اور دین اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور دین کو غالب فرمایا : 1۔ وہ ذات جس نے رسول کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح :28) 2۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خالصتاً اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ:193) 3۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران :160) 4۔ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 5۔ کتنی قلیل جماعتیں جو ” اللہ“ کے حکم سے کثیر جماعتوں پر غالب آئیں۔ ( البقرۃ:249) 6۔ ” اللہ“ کا وعدہ ہے کہ میں اپنے رسولوں کو ضرور غالب کروں گا۔ (المجادلہ :21) ( المومنون :55)