إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
جب کہ (١) ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت کو جگہ دی اور غیرت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (٢) اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا (٣) اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : مسلمانوں کو حرم مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی اصل وجہ اہل مکہ کی جہالت اور قومی عصبیّت تھی۔ اہل مکہ یہ حقیقت جان چکے تھے کہ مسلمان عمرہ کے سوا کوئی عزم نہیں رکھتے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ کسی کو بیت اللہ کی زیارت سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی جہالت اور عصبیت کی وجہ سے ضد کا مظاہرہ کیا۔ آپ (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ مکے والوں کا یہ اقدام نبی معظم (ﷺ) اور صحابہ (رض) کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لیکن آپ نے انتہائی بردباری اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اہل مکہ کو مذاکرات کرنے پر مجبور کردیا۔ اس صورت حال کا اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ سکینت اور تقویٰ کا نتیجہ تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قائم رکھا اور وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں صحابہ کرام (رض) کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے انہیں کَلِمَۃَ التَّقْوٰیĬ پر قا ئم رکھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے۔ یہاں تقویٰ سے مراد نبی (ﷺ) کی اطاعت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑائی سے بچنا ہے۔ اس سے پہلی آیت 15میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں پر راضی ہوگیا جنہوں نے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو جانتا ہے۔ ان پر سکینت نازل کی گئی اور وہ بہت جلد فتح یاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کے دلوں کی گواہی دی اور فرمایا کہ جن لوگوں نے آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر تقویٰ کو لازم کر دیاتھا اور وہ اس بات کے حق دار تھے۔ یہاں صحابہ کرام (رض) کے پاک دل ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔ پہلے پارے میں ان کے ایمان کو ایمان کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ (البقرۃ:137) یہ گواہی اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اس فرمان سے ان لوگوں کی یا وہ گوئی کی نفی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) کے بعد چند صحابہ کرام اپنے ایمان پر پکے رہے باقی اپنے ایمان سے منحرف ہوگئے۔ ان کی ہرزہ سرائی سے صرف صحابہ کرام (رض) کی توہین نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی گواہی کی بھی توہین ہوتی ہے۔ اس قسم کی یا وہ گوئی کرنے والے لوگوں کو مسلمانوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے۔ اہل علم نے ” کَلِمَۃَ التَّقْوٰی“ سے مراد کلمہ طیبہ اور اللہ کا خوف لیا ہے۔ جو شخص اپنے دل میں کلمہ طیبہ کا مفہوم اور اللہ کا خوف بٹھا لیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے حق بات پر استقامت عطا فرمانے کے ساتھ اس کے ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ مسائل: 1۔ اہل مکہ نے صرف جہالت اور ضد کی بنیاد پر نبی (ﷺ) اور صحابہ کرام کو بیت اللہ کی زیارت سے روکا ورنہ ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ 2۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکون اور اطمینان نازل فرمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کو تقویٰ پر قائم فرمایا۔ 4۔ صحابہ کرام ہر اعتبار سے تقویٰ کے مستحق اور اہل تھے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ صحابہ کرام آخر دم تک تقویٰ اور ایمان پر قائم رہیں گے، چنانچہ صحابہ کرام (رض) تادم آخر تقویٰ پر قائم رہے۔ تفسیربالقرآن صحابہ کرام (رض) کا ایمان اور مقام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ (رض) کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات :3) 2۔ صحابہ (رض) ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ :137) 3۔ صحابہ (رض) اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلہ :22) 4۔ صحابہ (رض) کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ :13) 5۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ :22) 6۔ صحابہ (رض) بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینہ :8) 7۔ صحابہ (رض) کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی۔ (البینہ :8)