سورة الفتح - آیت 4

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں (١) اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں (٢) اور اللہ تعالیٰ دانا با حکمت ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت4سے5) ربط کلام : صحابہ کرام (رض) کو فتح مکہ کی خوشخبری سنانے کے ساتھ جنت کی خوشخبری بھی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو حدیبیہ کے مقام پر بر وقت اور ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کی راہنمائی فرمائی اور مومنوں پر اطمینان اور سکون نازل فرمایا تاکہ مومنوں کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمانوں کے لشکر اور قوتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ”یَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا“ کے الفاظ فرما کر صحابہ کرام (رض) کو بتلایا ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ ہوا تھا اس میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور توفیق شامل حال تھی اس لیے یہ معاہدہ ہر اعتبار سے صحیح ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں صحابہ کرام (رض) کو کامیابیاں عطا فرمائیں اور آخرت میں مومن اور مومنات کو جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور جنتی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی پہلی پانچ آیات میں نبی (ﷺ) اور صحابہ (رض) کو پانچ، پانچ خوشخبریاں سنائیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا دوسرا انہیں نہیں دیکھ سکے گا۔“ عربی لغت ” المنجد“ کے مطابق ” اَلسَّکِیْنَۃُ“ کا معنٰی سکون، اطمینان، سنجیدگی اور وقار ہے۔ مسائل: اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو اس موقعہ پر پانچ اور صحابہ (رض) کو چار خوشخبریاں دیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی صورت میں آپ (ﷺ) کو عظیم فتح عطا فرمائی اور اسلام کی کامیابی کے لیے راستہ کھول دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کے اگلے پچھلے گنا ہوں کو معاف فرمادیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر اپنی نعمت پوری کرنے کا وعدہ فرمایا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے مقابلے میں آپ (ﷺ) کی زبردست مدد فرمائی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کی گارنٹی دی۔ 1۔ صحابہ اور صحابیات (رض) کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمایا۔ 2۔ صحابہ اور صحابیات (رض) کے گناہ معاف کرنے کی خوشخبری سنائی۔ 3۔ صحابہ (رض) کے ایمان میں مزید اضافہ فرمایا۔ 4۔ صحابہ اور صحابیات (رض) کو ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز کیا : 1۔ بدر میں مشرکین پسپا ہوئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ (آل عمران : 123تا127) 2۔ احد میں پہلے مسلمان غالب رہے۔ (آل عمران :152) 3۔ 8 ہجری کو اہل مکہ مغلوب ہوئے اور مسلمان کامیاب ہوئے۔ (الفتح :1) 4۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست کھا گئے اور مسلمان کامیاب رہے۔ (التوبہ :26) 5۔ جنگ خندق میں اہل مکہ اور دیگر قبائل کو شکست ہوئی۔ (الاحزاب : 25تا27) 6۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ :22)