سورة محمد - آیت 36

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

واقعی زندگانی دنیا صرف کھیل کود ہے (١) اور اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقوٰی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگتا (٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت36سے38) ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان دنیا کی حقیقت جاننے کی کوشش کرے اور پھر یقین کرے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا عارضی اور حقیر ہے۔ قرآن مجید بار بار انسان کو یہ حقیقت بتلاتا اور سمجھاتا ہے کہ دنیا کی حیثیت کھیل اور تماشا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کھیل اور تماشا وقتی طور پر دل بہلانے کا سامان اور صحت کو برقرار رکھنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے یہی حقیقت آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ہے، لازم ہے کہ انسان دنیا میں دل لگانے کی بجائے اسے آخرت سنوارنے کا ذریعہ سمجھے تاکہ انسان جنت کی دائمی نعمتوں کا مالک قرار پائے۔ اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی کا اللہ اور اس کے رسول کی ذات اور بات پر کامل اور اکمل ایمان لائے۔ اس لیے ارشادہوا ہے کہ اگر تم سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ اور حقیقی طور پر تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں بے انتہا اجر عطا فرمائے گا اور یاد رکھو! وہ تم سے تمہارے پورے مال کا تقاضا نہیں کرتا۔ اگر وہ تم سے پورے مال کا مطالبہ کرتا تو تم بخل کا مظاہرہ کرتے اور تمہارا بخل ظاہر ہوجاتا۔ وہ تم سے نہ پورے مال کا تقاضا کرتا ہے اور نہ تمہیں تنگ کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا جو بخل کرے گا اس کے بخل کا اسے ہی نقصان ہوگا۔ یادرکھو ! اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے اور تم ہر حال میں اس کے محتاج ہو۔ اگر تم قتال اور انفاق فی سبیل اللہ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا وہ تم جیسے نہیں ہوں گے وہ تم سے بہتر ہوں گے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ بات واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تنگ کرنے کے کے لیے تم سے پورے مال کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ تو جہاد اور غرباء کے لیے تم سے معمولی مال کا مطالبہ کرتا ہے جس میں تمہیں ہی فائدہ ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا) (رواہ البخاری : باب قول اللّٰہِ تعالیٰİ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بالْحُسْنٰیĬ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے اتارے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ آواز لگاتا ہے۔ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما دوسرا یہ کہتا ہے اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کا مال ختم کردے۔“ مسائل: 1۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی اور تھوڑی ہے۔ 2۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کھیل تماشا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ 3۔ اگر لوگ ایمان لائیں اور پرہیزگاری اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا اجر عطا فرمائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے بہت کم مال کا تقاضا کرتا ہے۔ 5۔ بخل کرنے والا بالآخر اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے اور لوگ ہر حوالے سے اس کے محتاج ہیں۔ تفسیر بالقرآن: بخیل کی مذّمت اور اس کا انجام : 1۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ :34) 2۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (الہمزہ :3) (آل عمران :180) (التغابن : 16، الحشر :9) (التوبہ :35)