سورة محمد - آیت 25

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت واضح (١) ہوچکی یقیناً شیطان نے ان کے لئے (ان کے فعل کو) مزین کردیا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے۔ (٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 25 سے 28) ربط کلام : منافق قرآن مجید سنتے ہیں مگر اس پر غور نہ کرنے کی وجہ سے ہدایت سے منہ پھیرلیتے ہیں جس وجہ سے گمراہی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کو ان کے برے اعمال خوبصورت کرکے دکھلاتا ہے اور انہیں جھوٹی امیدیں دلائے رکھتا ہے۔ شیطان کی شیطینت کی وجہ سے منافقین، یہود ونصاریٰ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کچھ کاموں میں تمہاری بات تسلیم کریں گے اور کچھ کاموں میں دوسروں کی بات مانیں گے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے راز جانتا ہے۔ اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ان کی موت کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ ماریں گے اور ان کی کمروں پر کوڑے برسائیں گے۔ اسی حالت میں انہیں دنیا سے عالم برزخ میں لے جائیں گے۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی پیروی کرنے کا انہیں حکم دیا وہ اسے برا سمجھتے ہیں اور اپنے رب کی رضا مندی کو اچھا نہیں جانتے۔ جس وجہ سے ان کے اچھے کاموں کو بھی غارت کردیا جائے گا۔ ﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ﴾ (الانفال :50) ” کاش ! آپ دیکھیں جب فرشتے کفار کی جان قبض کرتے ہیں تو ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلا دینے والا عذاب چکھو۔“ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآئِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِی جَسَدِہِ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ فَیَأْخُذُہَا فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَجْعَلُوہَا فِی تِلْکَ الْمُسُوحِ وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَنْتَنِ ریح جیفَۃٍ وُجِدَتْ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ فَیَصْعَدُونَ بِہَا فَلاَ یَمُرُّونَ بِہَا عَلَی مَلأٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ إِلاَّ قَالُوا مَا ہَذَا الرُّوحُ الْخَبِیثُ فَیَقُولُونَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمَّی بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتَّی یُنْتَہَی بِہِ إِلَی السَّمَاء الدُّنْیَا فَیُسْتَفْتَحُ لَہُ فَلاَ یُفْتَحُ لَہُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُول اللَّہِ ﴿لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَاب السَّمَاءِ وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ﴾ فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ اکْتُبُوا کِتَابَہُ فِی سِجِّینٍ فِی الأَرْضِ السُّفْلَی فَتُطْرَحُ رُوحُہُ طَرْحاً ثُمَّ قَرَأَ ﴿وَمَنْ یُشْرِکْ باللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ ۔۔) (رواہ أحمد : مسند براء بن عازب (رض)، ھذا حدیث صحیح ) ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور اس کی موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ کی جاتی ہے، اور اس کو اس طرح کھینچا جاتا ہے جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے پھر اس روح کو فرشتے پکڑتے ہیں اور کوئی فرشتہ اسے اپنے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے سے زیادہ دیر نہیں رکھتا۔ اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار جیسی گندی بدبو نکلتی ہے جس طرح تم مردار کی بدبو زمین پر محسوس کرتے ہو۔ وہ اسے لیکر آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ان کا گذر جس فرشتے کے ہاں ہوتا تو وہ کہتا ہے یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ جواب دیتے ہیں وہ فلاں ابن فلاں ہے اس کے برے برے نام لیتے ہیں جن کے ساتھ اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے تو دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت پڑھی ( ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں داخل کردیں۔) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کے اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو زمین کی سب سے نچلی جگہ ہے اس کی روح کو پھینکا جائے گا پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت کی ( اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا پرندے اسے اچک رہے ہیں یا ہوا اس کو دور جگہ میں پھینک رہی ہے۔ ) “ مسائل: 1۔ ہدایت واضح ہونے کے باوجود منافق اسے قبول نہیں کرتا۔ 2۔ شیطان منافق کو اس کا برا کردار اچھا کرکے دکھلاتا ہے اور اسے جھوٹی امیدیں دلائے رکھتا ہے۔ 3۔ منافق کفار اور مسلمانوں کو اپنی رفاقت کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ 4۔ ملائکہ منافق کی موت کے وقت اس کے چہرے اور کمر پر مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہیں۔ 5۔ منافق اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اللہ کی ناراضگی کے کاموں پر خوش ہوتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ منافق کے تمام اعمال غارت کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کن لوگوں کے اعمال غارت ہوجائیں گے : 1۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف :147) 2۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبہ :17) 3۔ رسول (ﷺ) کی گستاخی کرنے والے کے اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے۔ (الحجرات :2) 4۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ:5) 5۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد :33) 6۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : 21، 22)