وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ
تمہیں جو کچھ اس دن پہنچا جس دن دو جماعتوں میں مڈ بھیڑ ہوئی تھی وہ سب اللہ کے حکم سے تھا اس لئے تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہری طور پر جان لے۔
فہم القرآن : (آیت 166 سے 167) ربط کلام : احد کے واقعات پر تبصرہ رواں ہے تاکہ امت آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی منافقین کا ردّ عمل اور کردار بتلایا گیا ہے۔ اُحد کے دن کفار کے ساتھ ٹکراؤ میں مسلمانوں کو جو کچھ پیش آیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تھا۔ اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدّر میں اسی طرح لکھا تھا اور دوسرا معنٰی یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کفار کے خلاف برسر پیکار ہوئے جس کے نتیجے میں تمہیں زخم اور پریشانی اٹھانا پڑی۔ اس کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ مومنوں اور منافقوں کے درمیان حد فاصل قائم ہوجائے۔ جب مخلص مسلمان منافقوں کو سمجھا رہے تھے کہ آؤ اللہ کے راستے میں قتال کرو اگر تم لڑنے پر آمادہ نہیں ہو تو کم از کم ہمارے ساتھ شامل ہو کر دفاع کو مضبوط بناؤ۔ لیکن منافق تو یہی کہے جا رہے تھے کہ اگر ہم اسے قتال فی سبیل اللہ سمجھتے تو ضرور تمہارے ساتھ شامل ہوتے کیونکہ اتنے بڑے لشکر کے ساتھ لڑنا سرا سر خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ ایسی صورت میں ہم تمہارے ساتھ کس طرح کھڑے رہ سکتے ہیں؟ بہر حال منافقین نے واپسی کا فیصلہ کیا تو اس نازک ترین موقعہ پر حضرت جابر (رض) کے والد عبداللہ بن عمرو (رض) نے انہیں ان کا فرض یاد دلانا چاہا کہ واپس آؤ۔ اللہ کی راہ میں لڑو یا دفاع کرو مگر انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر ہم جانتے کہ واقعی جہاد ہے تو ہم ضرور تمہارے ساتھ شامل ہوتے یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) یہ کہتے ہوئے واپس آئے کہ اللہ کے دشمنو! تم پر اللہ کی مار ہو۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اپنے نبی (ﷺ) کو تم سے بے نیاز کر دے گا۔ [ الرحیق المختوم : عبداللہ بن أبی اور اس کے ساتھیوں کی سرکشی] درحقیقت منافق یہ بہانہ بنا کر مسلمانوں کو کمزور اور کفار پر اپنی ہمدردیاں ظاہر کرنا چاہتے تھے کیونکہ حقیقت میں منافق مسلمانوں کے بجائے کفار کے قریب ہوا کرتے ہیں اور اس دن بھی ایسا ہی تھا۔ منافق مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے وہ کچھ اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دل کی آواز نہیں تھی۔ وہ مسلمانوں سے اپنا خبث باطن چھپاسکتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں وہ کچھ نہیں چھپا سکتے۔ مسائل : 1۔ احد کے دن پہنچنے والی مصیبت میں مومنوں کا امتحان تھا۔ 2۔ منافق ایمان کے بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ 3۔ منافق کا دعو ٰی فریب پر مبنی ہوتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعے مومن اور منافق کے درمیان امتیاز پیدا کرتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : منافق کی نشانیاں : 1۔ منافق کو مسلمان کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران :120) 2۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون :1) 3۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ:14) 4۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ:60) 5۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ :14) 6۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون :8) 7۔ منافق کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران :167) 8۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء :142) 9۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ :10)