سورة محمد - آیت 3

ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ اس لئے کہ (١) کافروں نے باطل کی پیروی کی اور مومنوں نے اس دین حق کی اتباع کی جو ان کے اللہ کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے احوال اسی طرح بتاتا ہے (٢)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : کفارکے اعمال ضائع کرنے کا سبب اور ایمانداروں کو جزادینے کا باعث۔ کفارکے اعمال اس لیے ضائع کردیئے جائیں گے کہ وہ دین کے مقابلے میں کفر، توحید کے بدلے شرک اور حق کی بجائے باطل کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہر حال میں اس حق کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حالات اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ کفر اور اسلام، توحید اور شرک، حق اور باطل، جھوٹے اور سچے کے درمیان فرق کرسکیں۔ باطل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ حق کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا بشرطیکہ حق والے حق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے منظم ہو کر کفار کا مقابلہ کریں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے بدر، اُحد، خندق، فتح مکہ اور تبوک کے موقع پرواضح طور پر ثابت کر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ نیک اور منظم لوگوں کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ اور اس کے رسول کے منکر باطل کی پیروی کرتے ہیں۔ 2۔ ایماندار لوگ ہمیشہ اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ حق کے پیچھے لگتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے واقعات اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن: حق اور باطل کا امتیاز اور ان کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ (الرعد :17) (بنی اسرائیل :81) (الشوریٰ :24) (الانفال :8)