وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (١) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (٢)۔
فہم القرآن: (آیت 21 سے 23) ربط کلام : حق کے ساتھ استکبار کرنے والے لوگوں میں قوم عاد بھی شامل ہے اس لیے ان کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ اس کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے قرآن مجید نے انھیں ” احقاف والے“ کہا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین سیرت وصورت کے حامل تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کفر و شرک اور برے کاموں کو چھوڑ دو اور میرے پیچھے چلو۔ میں پوری دیانت داری کے ساتھ تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ اس خدمت پر میں آپ سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، میرا صلہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ تم ہر اونچی جگہ پر یاد گاریں بناتے ہو اور تم بے مقصد بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو جیسے تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ تم میں یہ برائی بھی موجود ہے کہ جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو تمھاراروّیہ ظالموں اور ” اللہ“ کے باغیوں جیسا ہوتا ہے۔ میں تمھیں پھر سمجھتاتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو میں اس کارسول ہوں اور میری تابعداری کرو۔ (الشعراء : 125تا131) حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ” اللہ“ کی عبادت اور توبہ واستغفار کی دعوت دی۔ لیکن قوم نے اس کا یہ جواب دیا کہ اے ھود! تو ہمارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل نہیں لایا۔ اس لیے ہم تیری بے بنیاد باتوں پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت کی وجہ سے ہمارے کچھ معبودوں کی تجھ پر مار پڑگئی ہے۔ جس کی وجہ سے تو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو چاہو کہو۔ لیکن میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ گواہ رہنا کہ جن کو اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نفرت اور برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے تمہارے معبودوں نے کچھ کردیا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے معبود اکٹھے ہو کر میرے خلاف جو اقدام کرنا چاہتے ہو کرو۔ میں تم سے ایک لمحہ بھی مہلت مانگنے کے تیار نہیں ہوں۔ (ھود : 52تا55) حضرت ھود علیہ السلامسے ان کی قوم نے وہی مطالبہ کیا جو ان سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم مطالبہ کرچکی تھی۔ حضرت ھود علیہ السلامنے اپنی قوم کے مطالبہ پر تین باتیں ارشاد فرمائیں۔1۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ تم پر کب اور کس طرح کا عذاب نازل کرے گا۔ 2۔ میرا کام تم تک اپنے رب کے پیغامات پہچانا ہے۔ 3۔ اے میری قوم! تم نے ہدایت کی بجائے عذاب کا مطالبہ کیا ہے جو پرلے درجے کی جہالت ہے۔ یاد رہے کہ مشرکین کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنے معبودوں کے متعلق جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بلکہ توحید کی دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے حاجت روا اور مشکل کشاؤں کے خلاف بات کی تو وہ تمہارا قلع قمع کردیں گے۔ اگر کسی موحد کو ناگہانی مشکل آن پڑے یا کوئی نقصان ہوجائے تو مشرکین یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسا ہی دعویٰ حضرت ھود (علیہ السلام) کے مخالفوں نے کیا تھا حالانکہ ہر دور میں یہ مثالیں موجود رہی ہیں کہ مشرکین جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اپنے اور کسی دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ پاکستان میں علی ہجویری کے مزار کی تعمیر کے دوران مزار کی چھت گِر پڑی جس سے درجنوں مزدور لقمہ اجل بنے، سندھ میں شہباز قلندر کے مزار میں آگ لگ گئی جس سے سب کچھ جل کر خاکستر ہوا۔ 2010ء میں بڑے بڑے مزارات پر دھماکے ہوئے جن میں درجنوں لوگ چل بسے۔ پنجاب حکومت نے لاہور کی سڑکیں کھلی کرنے کے لیے کئی مزارات مسمار کیے لیکن مسمار کرنے والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ حالانکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قبروں والے مدد کرتے ہیں۔ اسی عقیدہ کی بنا پر اس نے مزارات پر کروڑوں روپے لگا کر انہیں نئے سرے سے تعمیر کروایا۔ مسائل: 1۔ حضرت ھود علیہ السلامنے قوم عاد کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کی تلقین فرمائی۔ 2۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو عظیم دن کے عظیم عذاب سے ڈرایا۔ 3۔ قوم عاد نے حضرت ھود علیہ السلامکی دعوت کے مقابلے میں اپنے باطل معبودوں پر اصرار کیا اور ھود علیہ السلامسے عذاب لانے کا مطالبہ کیا۔ 4۔ قوم عاد کی دھمکی پر حضرت ھود علیہ السلامنے فرمایا کہ تم جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ تفسیر بالقرآن: حضرت ھود (علیہ السلام) کی بدعا اور قوم کا انجام : 1۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المومنون :39) 2۔ قوم ہود پر سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ :7) 3۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف :24) 4۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقہ :7) 5۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات :42) 6۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف :72) 7۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ :16) 8۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود :58)