سورة الأحقاف - آیت 16

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بعض اعمال سے درگزر کرلیتے ہیں، یہ جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : نیک اولاد اور صالح اعمال کرنے والے لوگوں کی جزا۔ جو ایماندار لوگ ” اللہ“ کے شکر گزار، اپنے والدین کے تابع فرمان ہوں گے اور صالح اعمال اختیار کریں گے۔ ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ہم ان لوگوں کے نیک اعمال منظور فرمائیں گے اور ان کی بشری کوتاہیوں سے صرف نظر کریں گے اور انہیں اہل جنت میں شامل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ سچا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ اور فرمان سچا اور اٹل ہوتا ہے۔ والدین کی تابعدار اور شکرگزار اولاد کے لیے بالخصوص ﴿ وَعْدَ الصِّدْقِ﴾ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ پیغام دیا ہے کہ لوگو! اپنے والدین کا تابع فرمان رہنا اور میرا شکر گزار بننا۔ میرا شکر گزار اور والدین کا تابعدار ہونے کا صلہ یہ ہے کہ میں تمہاری نیکیوں کو مستجاب اور غلطیوں سے درگزر فرما کر تمہیں اہل جنت میں شامل کروں گا۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ () یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ) (رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ، ہذا حدیث حسن غریب) ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَاب النَّارِ﴾ (البقرۃ:201) ” اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔“