سورة الجاثية - آیت 36

فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس اللہ کی تعریف ہے جو آسمانوں اور زمین اور تمام جہان کا پالنہار ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 36 سے 37) ربط کلام : الجاثیہ کی آیت 32میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اللہ“ کا وعدہ سچا ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی مگر قیامت کے منکراس پر ایمان لانے کی بجائے اسے مذاق کانشانہ بناتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے اسباب پر اتراتے ہیں۔ حالانکہ ہرقسم کی بڑائی اور کبریائی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ ” اللہ“ ہی کے لیے تمام تعریفات ہیں جو آسمانوں، زمینوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ زمین و آسمانوں میں ہر قسم کی کبریائی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ یہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے تین مرتبہ ” رب“ کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا کہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق زمین و آسمانوں اور جو ان کے درمیان موجود ہے وہ ” الْعٰلَمِیْنَ“ میں شامل ہے۔ ” الْعٰلَمِیْنَ“ کا لفظ استعمال فرما کر اپنی ساری مخلوقات کا احاطہ کرلیا ہے۔ جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے کہ میری مخلوقات کو میرے سوا کوئی نہیں جانتا (المدثر :31) لفظ رب کے چار معانی ہیں۔ خالق، رازق، مالک اور بادشاہ یہاں بار، بار رب کا لفظ استعمال فرما کر ثابت کیا ہے کہ زمین و آسمان اور پوری کائنات کا صرف ایک ہی رب ہے۔ جب پوری کائنات کا ایک ہی رب ہے تو ہر قسم کی کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ جب کبریائی صرف اسی کو زیب دیتی ہے تو پھر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے رب کی ذات اور اس کے احکامات کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ انسان کے لیے اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ جو لوگ اس کی ذات اور احکامات کے ساتھ تکبر کرتے ہیں انہیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے رب کے سامنے کتنے سامنے بے بس ہیں اور ہوں گے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدَرِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ () الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِی عَذَّبْتُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر ) ” حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا عزت اللہ تعالیٰ کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ان کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے باپ سے نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کے پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ 2۔ زمین و آسمانوں میں اللہ ہی کو کبریائی زیب دیتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے غالب ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 2۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:117) 3 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام :61) 4۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر :1) 5۔ اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلۃ:21) 6۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ :20)