ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی (١) ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی (٢) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں کر رہے تھے (٣) اور کہتے تھے کہ ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے (٤) کہہ دیجئے کام کل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے (٥) یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتے (٦) کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے (٧) آپ کہہ دیجئے گو تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے (٨) اللہ تعالیٰ کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پاک کرنا تھا (٩) اور اللہ تعالیٰ سینوں کے بھید سے آگاہ ہے (١٠)۔
فہم القرآن : (آیت 154 سے 155) ربط کلام : احد کے بارے میں تبصرہ جاری ہے۔ احد کے میدان سے ایک دفعہ ہٹنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ پر سکینت کا نزول۔ اُحد میں سراسیمگی اور پے درپے صدمات کے عالم میں اچانک اللہ کی رحمت کا نزول ہوا جہاں جہاں کوئی تھا۔ لمحہ بھر کے لیے اسے اونگھ آئی جس سے کئی دنوں کی تھکاوٹ اور دماغ کا بوجھ ہلکا ہوا۔ صحابہ (رض) اس طرح تازہ دم ہوئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حضرت طلحہ (رض) اپنی کیفیت ذکر کرتے ہیں : (کُنْتُ فِیْمَنْ تَغَشَّاہ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ حَتّٰی سَقَطَ سَیْفِیْ مِنْ یَدِیْ مِرَارًا یَسْقُطُ وَآخُذُہٗ وَیَسْقُطُ فَآخُذُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب ثم أنزل علیکم من بعد الغم الخ] ” میں ان لوگوں میں تھا جنہیں اونگھ نے آلیا حتیٰ کہ میرے ہاتھ سے کئی مرتبہ تلوار گری اور میں اسے اٹھاتا رہا۔“ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں نہ اونگھ آئی اور نہ ہی انہیں کچھ سکون حاصل ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ کاش! ہمارے پاس فیصلہ کرنے کا کچھ اختیار ہوتا۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھے۔ یہ بھی کہے جا رہے تھے کہ اگر ہماری بات چلتی تو ہم یہاں مرنے اور کٹنے کے بجائے اپنے گھروں میں ٹھہرے رہتے انہیں سمجھاتے ہوئے یہ عقیدہ بتلایا گیا ہے کہ کلی اختیارات صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں بستروں پر لیٹے ہوتے تو پھر بھی موت کے وقت اپنے مقتل پر پہنچ جاتے۔ گو شکست تمہاری اپنی کمزوریوں کا نیتجہ ہے لیکن حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں آزمائش ہے تاکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ ظاہر ہوجائے اور تمہیں معلوم ہو کہ تم ایمان کے کس مقام پر کھڑے ہو؟ اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات سے خوب واقف ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں کے ساتھ بعض کمزور مسلمانوں نے بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جن کے متعلق یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے احد کے دن پیٹھ دکھائی درحقیقت ان کی کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ نہایت ہی معاف فرمانے والا، بُردبار ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) اس فرمان کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان کے اعمال لشکر کی طرح ہیں جو آدمی کو اپنے مطابق گھسیٹ لیتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں گے تو وہ نیکی کی طرف کھینچ لیں گے اور اگر برے اعمال ہوں گے تو وہ برائی کی طرف لے جائیں گے۔ یہاں معافی کا اعلان ان مسلمانوں کے لیے ہے جو درّہ اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے کسی شخص نے حضرت عثمان (رض) پر اعتراض کیا کہ وہ تین اہم موقعوں پر غیر حاضر تھے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ صلح حدیبیہ کے وقت حضرت عثمان کو نبی کریم (ﷺ) نے اپنی اور مسلمانوں کی طرف سے مکہ میں نمائندہ بنا کر بھیجا تھا کہ وہ کفار کے ساتھ مذاکرات کریں۔ جب آپ نے صحابہ سے بیعت لی تو اپنے ہاتھ کو عثمان (رض) کا ہاتھ قرار دیا تھا۔ اس سے بڑھ کر کونسا اعزاز ہوسکتا ہے؟ غزوۂ بدر میں حضرت عثمان (رض) کی غیر حاضری اس لیے تھی کہ ان کی بیوی جو نبی کریم کی بیٹی تھی وہ ان دنوں شدید بیمار تھیں۔ آپ نے اس کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمان (رض) کو گھر میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ جہاں تک احد میں میدان چھوڑ کر بھاگنے کا تعلق ہے۔ اس میں چودہ صحابہ (رض) کے علاوہ باقی سب شامل تھے۔ حضرت عثمان (رض) تنہا نہیں تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کردینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے بعدابن عمر (رض) نے یہ آیت پڑھتے ہوئے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ ﴿ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃ﴾ سے مرا دایسا خیال ہے جو عقیدہ توحید اور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہو۔ کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ ﴿إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللَّہِ الْغَرُورُ﴾[ لقمان :33] ” بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے چنانچہ تمہیں دنیاکی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ شیطان اللہ کے بارے میں دھوکے میں رکھے۔“ مسائل : 1۔ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ 2۔ مرنے کے وقت آدمی خود بخود موت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ 3۔ مرنے کے وقت آزمائش میں انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ 4۔ اللہ کا کرم نہ ہو تو شیطان آدمی کو پھسلا دیتا ہے۔ 5۔ اللہ سینوں کے رازوں کو جانتا ہے۔ 6۔ اللہ بخشنے والا‘ حوصلے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ظَنّ کے معانی : 1۔ ظن کا معنٰی یقین۔ (الحاقۃ20) 2۔ ظن کا معنی گمان کرنا۔ (یوسف :42) (موقعہ کی مناسبت سے معنٰی کا تعین کیا جاتا ہے) موت ہر کسی کا مقدر ہے : 1۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران :145) 2۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران :154) 3۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران :168) 4۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء :78) 5۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء :35) 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : 26، القصص :88)