وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے (١) یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی (٢) اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی (٣) تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے (٤) اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا (٥) تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے (٦) اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے (٧)۔
فہم القرآن : ربط کلام : احد میں ہونے والے افتراق کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ آئندہ اس سے بچا جاسکے۔ مجاہدین کی صفوں میں اختلافات ہوں تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ غزوۂ احد کے دن رسول اللہ (ﷺ) نے خواب بیان فرمایا کہ میں نے رات کو اپنے گردو پیش بہت سی گائیں ذبح ہوتی دیکھی ہیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میری تلوار کو دندانے پڑگئے ہیں۔ میں پھر دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط کڑا پکڑا ہوا ہے جس کی آپ نے یوں تعبیر فرمائی کہ پہلے ہمیں فتح ہوگی اس کے بعد نقصان اٹھانا پڑے گا اور بعد ازاں ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام] اُحد کی عارضی شکست پر منافقین نے ہرزہ سرائی کی چونکہ یہ رسول اپنے دعوائے رسالت میں سچا نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و حمایت کا وعدہ کیا ہوتا تو وہ ضرور پورا کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا وعدہ اس وقت پورا ہوگیا تھا۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے پھرتم نے آپس میں اختلاف کیا اور مال غنیمت کو دیکھ کر اپنے رسول کی نافرمانی کی۔ کچھ تم میں دنیا اکٹھی کر رہے تھے جبکہ دوسرے آخرت کے طلبگار تھے۔ یہ درّہ والوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن پچاس آدمیوں میں سے دس نے اپنے یونٹ کے سردار کے ساتھ جان دے دی لیکن درّہ نہیں چھوڑا۔ جب کہ دوسرے مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے حالانکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ان کو تعینات کرتے ہوئے فرمایا تھا : (إِنْ رَأَیْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَا تَبْرَحُوْا مَکَانَکُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد] ” اگر پرندوں کو ہماری بوٹیاں نوچتے ہوئے دیکھو تو پھر بھی تم نے درّہ کو نہیں چھوڑنا۔“ جب پہلے مرحلہ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور وہ مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے تو درّہ پر مامور لوگ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ ہمیں بھی شریک ہونا چاہیے ورنہ ہم مال غنیمت سے محروم رہ جائیں گے۔ دستے کے سالار حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ رسول معظم (ﷺ) نے ہمیں یہیں جمے رہنے کا حکم دیا ہے لیکن دس آدمیوں کے سوا باقی سب درّہ چھوڑ کر مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ درّہ خالی دیکھ کر خالد بن ولید کی سربراہی میں کفار نے حملہ کیا اور درّے والوں کو شہید کرتے ہوئے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے جس سے حواس باختہ ہو کر مسلمان ادھر ادھر پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کفار سے بچا لیا تاکہ تمہیں آزمائے اور پھر تمہیں معاف کردیا اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑا ہی فضل کرنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کا خواب سچا کردیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑا فضل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ صاحب فضل وکرم ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ جہان والوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (البقرۃ:243) 2۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ (آل عمران :152) 3۔ اللہ کا فضل نہ ہو تو آدمی شیطان کے تابع ہوجاتا ہے۔ (النساء :73) 4۔ اللہ کا فضل نہ ہو تو انسان خسارہ پاتا ہے۔ (البقرۃ:64) 5۔ اللہ کے فضل وکرم کے بغیر تکلیف سے نہیں بچا جاسکتا۔ (النور :14) 6۔ فضل سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ (آل عمران :73)