م
حم
فہم القرآن: (آیت 1 سے 6) ربط سورت : الزّخرف کا اختتام اس بات پر ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو خالقِ کل ماننے کے باوجود اس کی خالص بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان سے جھگڑا کرنے کی بجائے آپ ان کو سلام کہہ کرالگ ہوجائیں۔ الدّخان کی ابتداء اس فرمان سے ہوئی کہ ہم نے آپ پر قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے کفار اور مشرکین کو ڈرائیں شاید کہ وہ اپنی روش سے باز آجائیں۔ جن سورتوں کی ابتداء میں ﴿حٰمٓ ﴾کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں یہ پانچویں سورت ہے۔ ﴿حٰمٓ ﴾حروف مقطعات میں شمار ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں ہر صاحب علم جانتا ہے کہ ان کا معنٰی اور مفہوم نبی (ﷺ) نے بیان نہیں فرمایا اور نہ صحابہ کرام نے ان کا معنٰی آپ سے پوچھنے کی ضرور محسوس فرمائی۔ لہٰذا حروف مقطعات کا معنٰی جانے بغیر ہی ان کی تلاوت کرنی چاہیے۔﴿حٰمٓ ﴾ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی ابتداء اس بات سے کی ہے کہ اس کھلی کتاب کی قسم! ہم نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا ہے۔ یقیناً ہم لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والے ہیں۔ جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا اس میں ہر کام کے حکیمانہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے صرف ہماری طرف سے صادر ہوتے ہیں اور ہم ہی رسول کو بھیجنے والے ہیں۔ باالفاظ دیگر ہم نے اس رات فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک صاحب کتاب رسول مبعوث کرنا چاہیے۔ کتاب مبین اور رسول کو بھیجنا سراسر آپ کے رب کی رحمت کا کرشمہ ہے۔ یقیناً وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ کچھ اہل علم نے کمزور روایات کی بنیاد پر لکھا ہے کہ مبارک رات سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ہے۔ جسے شب برأت کہا جاتا ہے۔ یہ نام کسی حدیث سے ثابت نہیں کیونکہ شب فارسی زبان کا لفظ ہے اور برأت عربی کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رات کے بارے میں کچھ روایات ایسی ہیں جن سے اس رات کی کچھ نہ کچھ فضیلت معلوم ہوتی ہے لیکن جو فضائل اس رات سے منسوب کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب اس رات کے بارے میں ہیں جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ یہاں اس رات کو مبارک رات اور سورۃ القدر میں اسے عزت والی رات کہا گیا ہے۔ یہ رات رمضان المبارک میں آتی ہے کیونکہ قرآن مجید نے یہ بات کھلے الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید رمضان میں نازل کیا ہے۔ ( البقرۃ:185)۔ اس فرمان کے بعد اس رات کا قطعی فیصلہ ہوجاتا ہے کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات نہیں بلکہ یہ مبارک اور عزت والی رات رمضان المبارک میں آتی ہے۔ نبی (ﷺ) نے اس رات کی فضیلت اور نشاندہی فرمائی ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اور اسی رات میں لوگوں کی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ شب برأت نہیں بلکہ شب قدر ہے۔ جو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو رحمت قرار دیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ جہاں یہ کتاب پڑھی جائے گی اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ ہوگا اللہ تعالیٰ اس ملک اور ان لوگوں پر اپنی رحمت کا سایہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نیت وعمل کو جاننے والا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ رسول اور کتاب بھیجنا آپ کے رب کی اپنے بندوں پر رحمت ہے تاکہ وہ صحیح عقیدہ اور صالح اعمال کریں اور اپنے رب کی رحمت کے دائمی طور پر حقدار ہوجائیں۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید روشن کتاب ہے۔ 2۔ اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکیمانہ فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو مبارک اور عزت والی رات نازل فرمایا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی رسول (ﷺ) کو بھیجنے والا ہے۔ 5۔ کتاب کے نزول اور رسول (ﷺ) کی آمد کا مقصد لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ 6۔ قرآن مجید کو نازل کرنا اور نبی (ﷺ) کو مبعوث فرمانا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کس مہینے اور رات میں نازل ہوا : 1۔ قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل کیا گیا۔ (البقرۃ:185) 2۔ قرآن مجید عزت والی رات میں نازل کیا گیا۔ (القدر :1) 3۔ قرآن مجید مبارک رات میں نازل کیا گیا۔ (الدخان :3) 4۔ اس رات اہم ترین فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ ( الدخان :4)