يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے پلٹا دیں گے (یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نامراد ہوجاؤ گے۔
فہم القرآن : (آیت 149 سے 151) ربط کلام : جب تمہارے دشمن احد میں تمہیں عظیم نقصان پہنچا چکے اور تمہیں کافر بنانے کے درپے ہیں تو ان سے خیر کی توقع کا کیا معنٰی؟ مسلمانوں تمہار امولیٰ اور خیر خواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے بس اس پر بھروسہ رکھو۔ سورۃ آل عمران کی آیت 100میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم کفار اور منافقین کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں کافر بناکر چھوڑیں گے۔ اب دوبارہ تاکید کی جارہی ہے کہ اے مومنو! تم کافروں کے پیچھے لگو گے تو وہ تمہیں یکسر الٹے پاؤں پھیر دیں گے جس سے تمہیں دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یاد رکھو! صرف اللہ ہی تمہاری مدد کرنے والا ہے عنقریب وہ کفار کے دلوں میں تمہارا رعب اور دبدبہ ڈال دے گا کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے کسی صورت بھی تائید نہیں فرمائی۔ ان کا ٹھکانہ دہکتی ہوئی آگ ہے اور یہ ظالموں کے لیے بدترین ٹھکانہ ہوگا۔ غزوۂ احد کی ہزیمت کے بعد منافقوں کی سرگرمیاں اس قدر تیز ہوئیں کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں جا جا کر پروپیگنڈہ کرتے کہ اگر یہ رسول سچا ہوتا تو اللہ اس کی نصرت و حمایت ضرور کرتا اور تمہیں اس طرح اپنی قیمتی جانوں سے محروم نہ ہونا پڑتا۔ تم اپنی خیر اور تحفظ چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ مل جاؤ تاکہ ہم اپنے رئیس عبداللہ بن ابی کے ذریعے اہل مکہ سے تمہیں حفظ و امان کی گارنٹی لے دیں۔ یہاں کمزور مسلمانوں کو ارتداد اور منافقت سے بچانے کے لیے ایک دفعہ پھر حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم منافقوں کے پیچھے چلو گے تو یقیناً وہ تمہیں مرتد کردیں گے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی تمہارا خیر خواہ اور مددگار نہیں ہو سکتا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ کفار پر تمہارا رعب اور دبدبہ ڈال دے گا۔ چنانچہ احد کے دورانیہ میں دو دفعہ کفار پر ایسا رعب پڑا کہ وہ خود بخود پسپا ہوئے اور اس پسپائی پر ہمیشہ شرمندہ رہے۔ ایک اس وقت جب درّے کے راستہ مسلمانوں پر ان کے عقب سے انہوں نے حملہ کیا اور جونہی مسلمان اکٹھے ہوئے تو انہوں نے بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ دوسری دفعہ جب مدینے سے کچھ میل دور جا کر مسلمانوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ رسول اللہ (ﷺ) کو معلوم ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ ہمارے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہی لوگ نکلیں جو احد کی جنگ میں شریک تھے۔ کچھ تازہ دم لوگوں نے بھی نکلنا چاہا لیکن آپ نے ایک آدمی کے سوا کسی کو اجازت نہیں دی (الرحیق المختوم) جب تھکے ماندے اور انتہائی زخمی احد کے مجاہدوں کے ساتھ آپ نکلے تو کافروں نے صورت حال جان کر مکے کی راہ لی۔ اس طرح دوسری مرتبہ کفار پر مسلمانوں کا دبدبہ طاری ہوا۔ ایسے موقع پر رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : (نُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ) [ رواہ البخاری : کتاب التیمم] ” اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا رعب عطا کردیا ہے کہ میرا دشمن ایک مہینے کی مسافت پر بیٹھا ہوا بھی کانپتا رہے گا۔“ اسی رعب کا نتیجہ تھا کہ جب آپ نے مکہ پر یلغار کی تو مکہ والوں نے مقابلہ کرنے کی بجائی آپ سے معافی مانگ کر جان بچائی۔ اس کے بعد حنین والے پسپا ہوئے اور آخر میں سلطنت روم کے حکمران جو اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھی تبوک کے مقام پر آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ لا سکے۔ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو کفار کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ 2۔ کافر مسلمانوں کو مرتد بنا کر دنیا و آخرت کے نقصان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا مالک اور بہترین مدد کرنے والا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کفار کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈالتا ہے۔ 5۔ کافروں کے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ 6۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن : شرک بے بنیاد نظریہ ہے : 1۔ شرکیہ عقیدے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون :117) 2۔ شرک سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج :31) 3۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم :23) 4۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ:72) 5۔ مشرک کو اللہ تعالیٰ کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔ (النساء :48)