فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ
اس نے اپنی قوم کو بہلایا پھسلایا اور انہوں نے اسی کی مان لی یقیناً یہ سارے ہی نافرمان لوگ تھے۔
فہم القرآن : (آیت 54 سے 56) ربط کلام : فرعون کے تشدد اور پراپیگنڈہ کے قوم پر منفی اثرات۔ فرعون نے قوم کو ہر اعتبار سے مرعوب اور اپنے تابع رکھنے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جس کے نتیجہ میں قوم نے فرعون کی ہر بات کوتسلیم کیا جس کا سبب یہ تھا کہ یہ قوم بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمان تھی۔ فرعون اور اس کی قوم نے جب اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا اور سب کو سمندر میں غرق کرڈالا اور انہیں ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت بنادیا۔ فرعون کی قوم کے لیے ” فَاسْتَخَفَّ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مفسرین نے دو معانی بیان کیے ہیں۔ 1 ۔فرعون نے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا۔2 ۔اس نے اپنی قوم کو ڈرا دھمکا کر اور مختلف قسم کے لالچ دے کر ہلکا کردیا۔ ہر ڈکٹیٹر اور ظالم حکمران کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو مختلف قسم کے لالچ دے کر خرید لیتا ہے جس سے ان لوگوں کے ضمیر ہلکے ہوجاتے ہیں اور ڈکٹیٹرر کو خوش کرنے کے لیے وہ حق والوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ جو لوگ بکنے والے نہیں ہوتے ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی اکثریت دب کررہ جاتی ہے۔ یہی کچھ فرعون نے اپنی قوم کے ساتھ کیا۔ جس کے نتیجے میں لوگ اس کے سامنے جھک گئے اور ان کے ضمیر ہلکے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کا عذر قبول نہ کیا اور ان کو نافرمان قرار دیتے ہوئے فرعون کے ساتھ ہی غرق کردیا۔ فرعون کی قوم کے ساتھ یہ سلوک اس لیے ہوا کہ لوگوں کا اجتماعی طور پر فرض ہوتا ہے کہ وہ ظالم کا ہاتھ روکیں اور سچے لوگوں کا ساتھ دیں۔ لیکن انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بجائے فرعون اور اس کی پارٹی کا ساتھ دیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کیا۔ اس طرح انہیں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔ لوگوں کا اجتماعی فرض : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ [ التوبۃ:119] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جاؤ۔“ (مَثَلُ الْقَائِمِ عَلٰی حُدُوْدِ اللّٰہِ وَالْوَاقِعِ فِیْھَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَھَمُّوْا عَلٰی سَفِیْنَۃٍ فَأَصَابَ بَعْضُھُمْ أَعْلَاھَا وَبَعْضُھُمْ أَسْفَلَھَا فَکَانَ الَّذِیْنَ فِیْ أَسْفَلِھَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوْا عَلٰی مَنْ فَوْقَھُمْ فَقَالُوْا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِیْ نَصِیْبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ یَتْرُکُوْھُمْ وَمَا أَرَادُوْاھَلَکُوْا جَمِیْعًآ وَإِنْ أَخَذُوْا عَلٰی أَیْدِیْھِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیْعًا) [ رواہ البخاری : کتاب الشرکۃ، ھل یقرع فی القسمۃ والإستھام فیہ] ” اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں ملوث ہونے والوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے ایک بحری جہاز کے بارے میں قرعہ اندازی کی۔ بعض کو اوپر والے حصے میں اور کچھ کو نیچے والے حصے میں جگہ ملی۔ نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت پڑتی تو اوپر والوں کے پاس جاتے۔ نیچے والوں نے کہا کہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرلیتے ہیں اور اوپر والوں کو تکلیف نہیں دیتے۔ اگر اوپر والے انہیں اسی حالت پر چھوڑ دیں تو سب لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو روک لیں گے تو سب بچ جائیں گے۔“ مسائل: 1۔ فرعون نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی قوم کو ہلکا کردیا۔ 2۔ فرعون کی قوم بھی درحقیقت فاسق لوگ تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے فاسق قوم سے بدلہ لیا اور انہیں فرعون کے ساتھ غرقاب کردیا۔ 4۔ فرعون اور اس کی قوم کو ان سے بعد آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نے کن لوگوں سے انتقام لیا : 1۔ ان کے پاس انہی سے رسول آئے لیکن انہوں نے تکذیب کی جس بنا پر انہیں عذاب نے آلیا۔ (النحل :113) 2۔ ان کے لیے کہا جائے گا تکذیب کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا رہو۔ (السجدۃ :20) 3۔ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ (الشعراء :139) 4۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان :37) 5۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف :136) 6۔ ہم مجرموں سے انتقام لیا کرتے ہیں۔ ( سجدہ22)