وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ
بغیر اللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے دنیا کی چاہت والوں کو ہم دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دے دیں گے (١) اور احسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : رسول اللہ (ﷺ) کی موت کا اشارہ دے کر ہر کسی کا مرنا یقینی بتلایا ہے اور حوصلہ دیا ہے کہ موت سے ڈرنا اور موت کی وجہ سے نیکی کے کام اور جہاد سے پیچھے ہٹنا گناہ ہے۔ موت ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی شخص محفوظ نہیں۔ موت کا وقت اور اس کی جگہ کا تعین کردیا گیا ہے۔ کوئی ذی روح اس ضابطے سے بچ نہیں سکتا۔ جب موت یقینی‘ اس کا وقت مقرر اور اس کی جگہ متعین کردی گئی ہے تو اس سے ڈرنے کا کیا مطلب ؟ اسلام نے موت کا تصور اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جس سے انسان میں بیک وقت شجاعت اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان جان لے کہ اس نے مر کر ملیا میٹ نہیں ہونا بلکہ اپنے ایک ایک عمل کا اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینا ہے۔ موت پر یقین محکم ہو تو آدمی گھمسان کے رن میں اتر کر بھی خوف زدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی موت کا دن اور جگہ متعین ہے۔ اسی جذبہ کے پیش نظر مجاہد تلوار کی دھار‘ نیزے کی نوک کے سامنے اور توپ کے برستے ہوئے گولوں میں مسکرایا کرتا ہے۔ وہ موت کو سامنے آتے ہوئے دیکھ کر کترانے کی بجائے اس سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے یقین کامل ہے کہ موت ہر وقت اور ہر جگہ نہیں آسکتی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) أَنَّہٗ قَالَ مِنْ خَیْرِ مَعَاش النَّاسِ لَھُمْ رَجُلٌ مُمْسِکٌ عِنَانَ فَرَسِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَطِیْرُ عَلٰی مَتْنِہٖ کُلَّمَا سَمِعَ ھَیْعَۃً أَوْ فَزْعَۃً طَارَ عَلَیْہِ یَبْتَغِی الْمَوْتَ وَالْقَتْلَ مَظَانَّہٗ أَوْ رَجُلٌ فِیْ غَنِیْمَۃٍ فِیْ رَأْسِ شَعَفَۃٍ مِنْ ھٰذِہِ الشَّعَفِ أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَوْدِیَۃِ یُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَیُؤتِیَ الزَّکٰوۃَ وَیَعْبُدُ رَبَّہٗ حَتّٰی یَأْتِیَۃُ الْیَقِیْنُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِیْ خَیْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الأمارۃ، باب فضل الجھاد والرباط] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر زندگی اس آدمی کی ہے جو جہاد میں اپنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے اس کی پیٹھ پر اڑتا پھرتا ہے جب بھی کوئی شور یا ہنگامہ سنتا ہے تو وہ اس پر اڑتا ہواپہنچتا ہے موت اور قتل کی جگہوں کو تلاش کرتا ہے یا وہ آدمی سب سے بہتر زندگی والا ہے جو پہاڑ کی چوٹیوں میں کسی چوٹی یا وادیوں میں سے کسی وادی میں اپنی بکریوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہاں نماز پڑھتا‘ زکوٰۃ ادا کرتا اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتا رہتا ہے وہ لوگوں میں بہترین آدمی ہے۔“ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ان کا چچا غزؤہ بدر میں حاضر نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ میں نبی کریم (ﷺ) کی پہلی جنگ میں غیر حاضر تھا اگر اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیسی بہادری کے ساتھ لڑتا ہوں۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پھیلی تو انہوں نے کہا : اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں اس معاملہ میں معذرت کرتا ہوں جو مسلمانوں نے کیا اور میں مشرکین کے مسلمانوں پر غلبہ پانے سے تیرے حضور برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو سعد بن معاذ کو ملے۔ کہنے لگے اے سعد! کہاں جا رہے ہو؟ میں تواُحد کی دوسری طرف جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے اور شہید ہوگئے۔ پہچانے نہ گئے یہاں تک کہ میں نے ان کی انگلیوں کے پوروں سے ان کی لاش کو پہچانا۔ ان کے جسم پر نیزہ‘ تیر اور تلوار کے 80 سے اوپر زخم آئے تھے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد] حضرت خالد بن ولید (رض) نے اپنی وفات کے وقت مدینے کے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہی فلسفہ بیان کیا تھا کہ آج تم موت سے ڈرتے اور کتراتے ہو میری طرف دیکھو کہ میرے جسم پر درجنوں نشانات ہیں اور میں ہمیشہ میدان جنگ میں ہر اول دستہ کے طور پر لڑتا رہا ہوں لیکن افسوس! مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور ہونٹ کانپنے لگے۔ تب ایک بزرگ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو رسول معظم (ﷺ) نے ” سیف من سیوف اللّٰہ“ کا خطاب دیا تھا اگر یہ تلوار کفار کے ہاتھوں ٹوٹ جاتی تو رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان پر آنچ اور اسلام کے لیے آپ کی موت طعنہ بن جاتی۔ کفار کہتے کہ ہم نے اللہ کی تلوار توڑ دی ہے۔ (سیرت خالد بن ولید (رض) مسائل : 1۔ کوئی ذی روح اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں مرتا۔ 2۔ ہر کسی کے لیے موت کا دن اور جگہ مقرر ہے۔ 3۔ دنیا چاہنے والے کو دنیا اور آخرت چاہنے والے کو اللہ تعالیٰ آخرت کا اجر دیں گے۔ تفسیر بالقرآن : دنیا اور آخرت کے طلب گار میں فرق : 1۔ دنیا دار صرف دنیا طلب کرتے ہیں۔ (البقرۃ:220) 2۔ نیکو کار دنیا وآخرت کی اچھائی چاہتے ہیں۔ (البقرۃ:201) 3۔ دنیا چاہنے والوں کو دنیا اور آخرت چاہنے والوں کو آخرت ملتی ہے۔ (آل عمران :145) 4۔ دنیا کی زیب وزینت عارضی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الکہف :46)