وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہوجائیں (١) گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے۔
فہم القرآن : (آیت 23 سے 25) ربط کلام : جس مال کو لوگ جمع کرتے ہیں اور جس کی محبت میں مرے جاتے ہیں اس کی حقیقت۔ قرآن مجید نے بار بار لوگوں کو یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز عارضی اور ناپائیدار ہے۔ ہمیشہ رہنے والی آخرت ہے اس دن سچا ایمان اور صالح اعمال کام آئیں گے۔ جہاں تک دنیا کے وسائل اور اس کی زیب و زینت کا معاملہ ہے۔ اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ دنیا کی خاطر سب کے سب لوگ کفر پر اکٹھے ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کفار کے گھر ہی نہیں ان کے مکانوں کی چھتیں، سیڑھیاں، گھروں کے دروازے اور جہاں وہ تکیہ لگائے اپنی مجالس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی سونے چاندی کے بنا دیتا۔ یعنی اس قدر انہیں مال کی فروانی سے ہمکنار کردیتا لیکن سب کچھ دینے کے باوجوددنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ آخرت کے مقابلے میں عارضی اور قلیل سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آخرت ہر حال میں متقین کے لیے بہتر ہے۔ آیت نمبر 32کے ابتدائی الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر لوگوں کے پھسل جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو وہ کفار کو اس قدر دنیا کا مال و متاع عنایت کرتا کہ یہ اپنے مکانوں کی چھتیں اور دروازے بھی سونے، چاندی کے بنا لیتے۔ انسان آخر انسان ہے بے شک وہ کتنا ہی ایمان میں پختہ کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی وہ ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کو گمراہی سے بچانے کے لیے کفار کو ایک حد تک ہی وسائل عطا کیے ہیں۔ لیکن آخرت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح] ” حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی وقعت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ بھی پانی کا نہ دیتا۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) بازار میں ایک جانب سے داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے۔ ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم اسے کیسے پسند کریں۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کو بڑی آزمائش سے بچانے کے لیے کفار کو ایک حد تک وسائل عطا کیے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چاہتا توکفار کو اس قدر دنیا عطا کرتا کہ ان کے مکانوں کی چھتیں اور دروازے بھی چاندی کے ہوتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک متقین کے لیے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔