أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِينَ
کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اس بنا پر ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو (١)۔
فہم القرآن : (آیت 5 سے 8) ربط کلام : اگر لوگوں کا ایک طبقہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو کیا ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی راہنمائی نہ کرے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا وہ مہربان ہے اور اس کی مہربانی کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کرے جس کے لیے اس نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ قرآن مجید پہلی کتب آسمانی کا ترجمان، ان کے مضامین کا محافظ، پُر حکمت، عالی مرتبت اور عربی زبان میں ہے۔ اس کے باوجود اہل مکہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ ہر صورت قرآن مجید کی آوازکو دبا دیا جائے۔ اسی بنیاد پر وہ نبی کریم (ﷺ) کے جانی دشمن ہوچکے تھے۔ وہ کسی طرح بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ ان کی قوم کے سامنے قرآن مجید کی دعوت پیش کی جائے۔ اس پر انہیں سمجھایا گیا ہے کہ کیا تمہاری ہٹ دھرمی اور مخالفت کی وجہ سے ہم قرآن کو حضرت محمد (ﷺ) پرنازل کرنا اور لوگوں کی راہنمائی کرنا چھوڑ دیں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم سے پہلے بھی ہم نے بہت سے رسول مبعوث کیے۔ لوگوں کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ جس کی پاداش میں ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ حالانکہ وسائل واسباب، قوت وسطوت کے اعتبار سے وہ تم سے بڑھ کرتھے۔ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ چند باغیوں کی خاطر اپنے بندوں پر کرم فرمانا ترک نہیں کرتا۔ وہ ” اَلرَّحْمٰنُ‘ اور ” اَلْحَکِیْمُ“ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ سرکشی چھوڑ کر اس کی غلامی میں زندگی بسر کریں تاکہ انہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے۔ وہ حکیم ہے۔ حکیم کا کام ہے کہ وہ پر حکمت طریقہ کے ساتھ بگاڑ کا سدھار کرے۔ حکیم مریض کی خیر خواہی کی خاطر اس کی غلطی اور غفلت سے درگزر کرتے ہوئے اس کا علاج جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم اور سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیے اس نے ایک عرصہ تک مکہ میں نزول قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ چند سرداروں کو چھوڑ کرباقی لوگ اس سے ہدایت پائیں۔ چنانچہ ایساہی ہوا کہ کچھ لوگ نبی (ﷺ) کی ہجرت سے پہلے اور باقی فتح مکہ کے موقع پر قرآن مجید کی نصیحت سے سرفراز ہوئے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ” رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ وَرَضُوْعَنْہٗ“ کے عظیم ترین اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ لغت میں ذکر کے معنٰی یاد کرنا، کسی کی بزرگی بیان کرنا، یاد رکھنا، بات سمجھنا، سمجھانا، نصیحت کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہے۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چند ظالموں کی وجہ سے اپنے بندوں پر رحم کرنا نہیں چھوڑتا۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) سے پہلے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے ان سب کے ساتھ ان کی قوم نے مذاق کیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے ظالم قوموں کو ہلاک کردیا جو مکہ والوں سے قوت و سطوت میں کہیں زیادہ تھے۔ تفسیربالقرآن : اقوام کا اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ سلوک : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے۔ (ہود :38) 2۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ:79) 3۔ وہ تعجب کرتے اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت :12) 4۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت :14) 5۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس سے مذاق کیا۔ (الحجر :11) 6۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف :7) 7۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس :30) 8۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات :52) 9۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم :10)