سورة الشورى - آیت 15

فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں (١) اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : پہلی امتوں کے لوگ حسد وبغض کی وجہ سے تفرقہ بازی کا شکار ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں اللہ کا دین تقسیم ہوا اور لوگ دین کے بارے میں شک کا شکار ہوگئے۔ افتراق اور شک سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دین پر پکا رہے۔ دین پر پکا رہنے اور اس میں شک وشبہ سے بچنے کے لیے یہاں چار باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر باربار نبی اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے حکم ہوا ہے کہ آپ کو ان باتوں پر ہر حال میں توجہ دینا اور ان پر قائم رہنا ہوگا۔ 1 ۔قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان لانا۔2 ۔حالات جیسے بھی ہوں دین پر استقامت اختیار کرنا۔3 ۔لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کرنا۔4 ۔حالات کی پروا کیے بغیر دین حق کی لوگوں کو دعوت دیتے رہنا۔ جس داعی میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہی عدل کی بات کرسکتا اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کی زبان اطہر سے عدل کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جو کچھ میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں اس میں کسی کی حمایت اور مخالفت مقصود نہیں۔ میں تو اسی بات کی دعوت دیتاہوں جو انصاف پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اسی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔” اُمِرْتُ لِاَ عْدِ لَ بَیْنَکُمْ“ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان تمہارے دینی اور دنیاوی اختلافات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں۔ اگر تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو ہمارے ساتھ جھگڑنے کی بجائے تم اپنا کام کرو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو کیونکہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ نہ ہمارے اعمال کے بارے میں تمہیں پکڑا جائے گا اور نہ تمہارے اعمال کے بارے میں ہم پر کوئی گرفت ہوگی۔ اس کے باوجود تم جھگڑتے ہو تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اکٹھا فرما کرسب کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ہمیں تو ہر حال میں دین پر پکے رہنے اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے سے منع کیا گیا ہے۔ نبی (ﷺ) کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ () یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّہِ یُقَلِّبُہَا کَیْفَ یَشَاءُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیِ الرَّحْمَنِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ“ میرے دل کو دین پر ثابت فرما۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ہم آپ پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اسے تسلیم کیا۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں! بے شک دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدھر چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ مسلمان کوہر حال میں لوگوں کو دین کی دعوت دینا چاہیے۔ 2۔ ہر حال میں دین پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ 3۔ گمراہ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتب اور قرآن مجید پر ایمان لانا فرض ہے۔ 5۔ دین کا ایک مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔ 6۔ کوئی شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں۔ 7۔ اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف پلٹ کرجانا ہے۔ اور وہی لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ تفسیربالقرآن : دین پر استقامت اختیار کرنے کا حکم : 1۔ دین پر قائم رہو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ: 13) 2۔ دین پر قائم رہو اور بے علموں کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔ (یونس : 89) 3۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : 13)