وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا (١) لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں۔
فہم القرآن : (آیت8سے9) ربط کلام : اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگ جہنّمی نہ بنتے اور سب کے سب لوگ جنت میں داخل ہوتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حق پر مجبور کرنے کی بجائے اس نے لوگوں کو حق وباطل میں انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں حکمرانی عطا فرمائی اور ہر چیز کو اس کی خدمت پر لگا دیا۔ اشرف المخلوقات اور زمین پر خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اسے اس کی ذات کے بارے میں ایک حد تک اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ جس میں سب سے بڑا اختیار یہ دیا کہ یہ چاہے تو ” اللہ“ کی نازل کردہ ہدایت قبول کرے نہ چاہے تو گمراہی کا راستہ اختیار کرلے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے ہدایت اور گمراہی کو کھول کر بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ لوگوں کو ایک ہی امت یعنی ہدایت پر جمع کرسکتا تھا۔ لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے سرفراز کرتا ہے اور جو لوگ اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے وہ ظالم ہیں اور ظالموں کے لیے قیامت کے دن کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ ظالم سے پہلی مراد مشرک ہیں۔ مشرک کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز اور حقیقی خیرخواہ سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ موت وحیات صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جو ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ لفظ ولی کی تشریح اس سے پہلے آیت ٦ میں کردی گئی ہے۔ شرک کی حمایت کرنے والے مفسّرین نے یہاں بھی من دونہٖ اولیاء سے مراد بت لیے ہیں۔ حالانکہ ان سے مرادوہ بزرگ ہیں جن کی زندگی میں یا ان کے فوت ہونے کے بعد لوگوں نے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیا ہے۔ یہاں اولیاء سے مراد اس لیے بزرگ لیے گئے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کے الفاظ استعمال فرما کر کھلا اشارہ دیا ہے کہ جن بزرگوں اور اولیاء کے سامنے لوگ فریادیں کرتے ہیں وہ تو اپنی موت اور زندگی پر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ جب کسی کو اپنی موت اور زندگی کے بارے میں اختیار نہیں تو وہ کسی کی بگڑی کس طرح سنوار سکتا ہے۔ جو لوگ ہر مقام پر من دون اللہ سے مراد بت لیتے ہیں۔ انہیں انصاف سے سوچنا اور اقرار کرنا چاہیے کہ کیا بت میں روح ہوتی ہے؟ اس کے بارے میں موت اور زندگی کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ کیا بتوں کو قیامت کے دن زندہ کرکے ان سے حساب لیا جائے گا ؟ یہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے۔ یہاں رحمت سے مراد دین کا فہم اور اس پر عمل کرنا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: (عَنْ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ (ﷺ)يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي) ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ )نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جسے اپنی رحمت میں شامل کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ [ رواہ البخاری] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ 2۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سرفراز فرمانا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مشرک دور ہوتا ہے۔ 4۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ 5۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں اور بزرگوں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ 6۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تفسیربالقرآن : مشرک اللہ کے سوا اور اس کے ساتھ دوسروں کو اپنا کارساز سمجھتے ہیں : 1۔ کیا کافر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا کار ساز بنا لیں گے۔ (الکہف : 102) 2۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے ہی بندے ہیں۔ (الاعراف : 194) 3۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (الاعراف : 197) 4۔ سوال کیجیے کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ؟ (الاحقاف : 4) 5۔ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : 73) 6۔ تم بعل (بت) کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑدیتے ہو۔ (الصّٰفٰت : 125)