سورة فصلت - آیت 53

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قرآن کی مخالفت کرنے والوں کو ایک اور انتباہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور قوم کے لیے ایک حد مقرر کر رکھی ہے۔ جب کوئی انسان اور قوم اس حد کو پھلانگ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے عتاب کا کوڑا حرکت میں آجاتا ہے۔ منکرین حق کو اس وقت سے آگاہ کرنے کے لیے بتلایا گیا ہے کہ ہم عنقریب انہیں آفاق اور ان کی ذات سے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر حق آشکارا ہوجائے گا۔ یعنی اس وقت حق کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ لیکن اس وقت اعتراف اور اظہارِ حق کا نہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اے محبوب (ﷺ) ! آپ اس یقین کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں کہ آپ کا رب ہر حال میں ہر چیز کو دیکھتا اور اس پر گواہ ہوتا ہے۔ اُفق کی جمع آفاق ہے جس کا معنٰی حد نگاہ یا آسمان کا کنارہ ہے اور نفس کی جمع نفوس یا اَنْفُس آتی ہے جس سے مراد تمام انسان ہیں۔ لیکن یہاں انسان سے مراد کافر لوگ ہیں۔ انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ انہی کے نفوس میں سے اور آفاق سے اپنی قدرت کی نشانیاں ظاہر کرے گا۔ اکثر مفسّرین نے آفاق سے مراد اسلام کی فتوحات لی ہیں اور وضاحت فرمائی ہے کہ فتوحات بذات خود کوئی بڑی بات نہیں۔ کیونکہ دنیا میں ظالم اور فاسق قومیں ہوئیں اور صدیوں تک برسر اقتدار رہی ہیں۔ اسلامی فتوحات کی خوبی یہ ہے کہ اس میں دیانت و امانت کا بول بالا ہوا، شرم و حیا نے اپنا مقام پایا اور مظلوم کا ہاتھ ظالم کے گریباں تک پہنچا۔ اور عدل وانصاف قائم ہوا۔ جس سے دنیا جنت کی نظیر پیش کرنے کے قابل ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی فتوحات ” اللہ“ کی قدرت اور اس کی رحمت کا کرشمہ تھیں کہ جس بنا پر دنیا نے اسلام کے دامن میں سکون پایا۔ مگر آفاق کی نشانیوں میں ان نشانیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ جنہیں مکہ میں ظاہر کیا گیا۔ اللہ کے رسول (ﷺ) کی انگلی کے اشارے سے مکہ والوں کے سامنے چاند دو ٹکڑے ہوا جس کی شہادت دینے پر اہل مکہ مجبور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر (ﷺ) کو مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ اور مسجد اقصیٰ سے لے کر آسمانوں کی سیر کروائی۔ کفار نے مسجد اقصیٰ کی نشانیاں طلب کیں تو آپ (ﷺ) کے سامنے مسجد اقصیٰ پیش کردی گئی۔ جن کے سامنے انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ آپ (ﷺ) کی رسالت کی گواہی پتھروں نے دی۔ مکہ کے بڑے بڑے سردار میدان بدر میں تہہ تیغ ہوئے اور باقی نے اللہ کی وحدت، نبی (ﷺ) کی رسالت اور قرآن کی صداقت کو دل وجان سے قبول کیا۔ اس طرح ہمارے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا اور قیامت تک اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلاتا رہے گا۔ اس آیت مبارکہ کو سائنسی تجربات اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان اور بھی آشکارا ہوجاتا ہے۔ ” فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ“! اس لیے انسان کو اپنے افکار اور اعمال کو قرآن و سنت کے تابع کردینا چاہیے اور ہر دم یہ عقیدہ تازہ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ آفاق، نباتات اور قدرت کے عجائبات کا ادراک کرنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں سوسائنسدانوں کے مشاہدات پر مشتمل کتاب ” اللہ“ موجود ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے نفوس اور آفاق میں سے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ دلائل اور اپنی قدرت کی نشانیوں سے حق کو واضح کرتا ہے۔ 3۔ ہر انسان کو ہر وقت یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز اور کام کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا اور جانتا ہے : 1۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : 61) 2۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : 79) 3۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدہی توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جانتا اور حکمت والا ہے۔ (النساء : 17) 4۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : 32) 5۔ جو کچھ تم اللہ کے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔ (النساء : 39) 6۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : 34) 7۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: 32)