إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے (١) اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے (٢) اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں، وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں (٣)۔
فہم القرآن : (آیت47سے48) ربط کلام : جو شخص کتاب اللہ کے بارے میں شک کرتا ہے وہ قیامت کے بارے میں بھی شک کا شکار ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان خطاب برائے خطاب نہیں۔ قرآن انسان کی ہر پہلو پر راہنمائی کرتے ہوئے اس کی توجہ حقیقت پر مرکوز رکھتا ہے۔ اس کے بنیادی مضامین تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی ترغیب دینا ہے۔ فکر آخرت کو اس لیے بنیادی عقائد میں شامل کیا ہے کہ اس کے سوا آدمی کو نہ نیکی کرنے میں حوصلہ ملتا ہے اور نہ ہی برائی کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے توحید و رسالت کی تسلیم و اطاعت کے لیے آخرت کا احساس دلایا جاتا ہے۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیام آخرت کی منکر تھی جس بنا پر وہ نبی معظم (ﷺ) سے بار بار سوال کرتے کہ جس قیامت سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ کب برپا ہوگی ؟ قرآن مجید نے اس سوال کے کئی جواب دیئے ہیں۔ اس موقع پر صرف یہ ارشاد فرمایا کہ جس قیامت کے بارے میں تم استفسار کرتے ہو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کوئی پھل اپنے خوشے سے نہیں نکلتا اور نہ ہی مامتا اپنے بچے کو جنم دیتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کو اس کا مکمل علم ہوتا ہے جس قیامت کا تم انکار کرتے ہو اس کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو حکم فرمائے گا کہ جنہیں تم میرا شریک بناتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ انہیں سامنے لایا جائے۔ قبروں کے پجاری، بتوں کے مجاور، بزرگوں اور حکمرانوں کے پرستار عرض کریں گے۔ بارِ الٰہا! ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ قیامت کے بارے میں یہ جواب دینے کے بعد پھل کا اپنے خوشے سے نکلنا اور مامتاکا بچے کو جنم دینے کا اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ منکرین قیامت کو احساس ہو کہ جس طرح کوئی انسان ماں کے رحم سے جنم لینے والے بچے اور خوشے سے نکلنے والے پھل کے بارے میں حقیقی علم نہیں رکھتا۔ اسی طرح ہی قیامت کے بارے میں اسے کچھ علم نہیں ہوسکتا۔ جو ذات بیج سے خوشہ اور خوشے سے پودا پھر پودے سے پھل نکالتی ہے اور جو ماں کے رحم سے بچہ کو مختلف مراحل سے گزار کر پیدا کرتی ہے اسی ذات کا فرمان ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ جنہیں تم اس کا شریک بناتے اور سمجھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہیں ” اللہ“ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکیں گے۔ جب قیامت قائم ہوگی تو تمہاری حالت یہ ہوگی کہ تم اس بات کا اقرار کرو گے کہ جنہیں ہم دنیا میں اپنا سہارا سمجھتے تھے آج وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت تمہیں یقین ہوجائے گا کہ آج ہماری کسی طرح نجات نہیں ہوسکتی نہ ہی بھاگنے کی جگہ ہوگی۔ مشرک کے بنائے ہوئے شریکوں کے لیے ” ضَلَّ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ” ضَلَّ“ کا معنٰی ہے گم ہوجانا، بھول جانا، راستے سے بھٹک جانا، دین سے پھر جانا۔ قیامت کے مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ رب ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے مشرکوں کو ان کے شریک بھول جائیں گے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ 2۔ کوئی نہیں جانتا کہ پھل پکے گا یا پہلے ضائع ہوجائے گا۔ 3۔ کوئی ماں نہیں جانتی کہ وہ کب صاحب امید ہوگی اور کیسا بچہ جنم دے گی۔ 4۔ قیامت کے دن مشرک اپنے مشکل کشاؤں کو بھول جائیں گے۔ 5۔ قیامت کے دن مشرکوں کی نجات نہ ہوگی۔